نوبل امن انعام يافتہ نرگس محمدی کی جيل ميں بھوک ہڑتال
ايران ميں لازمی حجاب پہننے اور سزائے موت سے متعلق ملکی قوانين کی مخالفت کرنے والی نرگس محمدی تہران ميں سلاخوں کے پيچھے بھوک ہڑتال شروع کر رہی ہيں۔ محمدی کو اوسلو ميں کل نو دسمبر کو نوبل امن انعام دینے کے لیے باقاعدہ تقريب منعقد ہوئی۔ انہيں ‘ايران ميں عورتوں کے ساتھ زيادتيوں کے خلاف لڑنے‘ پر اس سال کے ليے اس اعزاز کا حقدار اکتوبر ميں قرار ديا جا چکا ہے۔
ناروے کے دارالحکومت اوسلو ميں ہفتہ نو دسمبر کو منعقدہ ايک پريس کانفرنس ميں نرگس محمدی کے بھائی حامد رضا محمدی اور خاوند طيغی رحمانی نے بتايا کہ نرگس محمدی نے ايران کی بہائی مذہبی اقليت کے ساتھ يکجہتی کے طور پر بھوک ہڑتال کا فيصلہ کيا ہے۔ اس موقع پر طيغی رحمانی نے بتايا کہ ايران ميں بہائی برادری کے کئی اہم رہنما بھی اس وقت بھوک ہڑتال پر ہيں اور اسی ليے نرگس نے بھی يہ وقت چنا۔
ايران کی بہائی برادری
مشرق وسطی کی شيعہ رياست ايران ميں بہائی سب سے بڑی مذہبی اقليت ہے۔ اس کے نمائندگان کا الزام ہے کہ کميونٹی کے ارکان کو معاشرے کے کئی معاملات ميں امتيازی سلوک کا سامنا رہتا ہے۔
نرگس محمدی کون ہيں؟
انسانی حقوق کی کارکن نرگس محمدی کی عمر اکاون برس ہے۔ ان کی سب سے تازہ پہچان يہی ہے کہ وہ پچھلے سال ستمبر ميں تہران ميں زير حراست مہسا امينی کی ہلاکت کے بعد شروع ہونے والی تحريک کی اہم آواز ہيں۔ اس تحريک کو ‘وومين، لائف، فريڈم‘ کے نام سے جانا جاتا ہے اور اس کے تحت عالمی سطح پر مظاہرے ہوتے رہے۔
محمدی کو مجموعی طور پر تيرہ مرتبہ گرفتار کيا گيا اور پانچ مرتبہ سزائے قيد سنائی گئی جن کی مدت اکتيس سال بنتی ہے جبکہ ساتھ ہی انہيں 154 کوڑے بھی مارے جانے ہيں۔ پچھلے بيس برسوں کا کچھ وقت انہوں نے آزاد گزارا تو کچھ وقت جيلوں ميں۔ آخری مرتبہ وہ سن 2021 سے زير حراست ہيں۔ ان کے بچوں کو، جو اب فرانس ميں مقيم ہيں، ان سے ملے ہوئے آٹھ سال گزر چکے ہيں۔