مشترک خاندان :مضبوط خاندان، مضبوط سماج کی بنیاد

مسلم محمود شمسی

عام طور پر بیٹی کی شادی کے لیے اکلوتا بیٹا پسند کیا جاتا ہے تاکہ دیوروں اور نندوں وغیرہ کی جھنجھٹ نہ ہو اور اگر لڑکا باہر رہتا ہو تو اس کو تو نعمت غیر مترقبہ سمجھا جاتا ہے۔ اللہ نہ کرے اگر ساس اللہ کی پیاری ہوگئی ہو تو کیا کہنے۔ عموماً بڑی اور جوائنٹ فیملی کو پسند نہیں کیا جاتا ہے۔ اکیلے گھر پر راج کرنا، اپنی من پسندزندگی جینا قابل رشک بات سمجھی جاتی ہے۔ یہ تنہائی اور آزادی شروع میں تو بہت خوش گوار لگتی ہے لیکن وقت گزرنے کے بعد جب خاندان میں اضافے کے ساتھ ساتھ ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں اور جو آسانیاں جوائنٹ فیملی میں رہ کر میسر ہوتی ہیں اس سے یہ مختصر خاندان محروم رہ جاتا ہے۔
جوائنت فیملی میں بچوں کو صرف والدین ہی نہیں بلکہ پورا خاندان پرورش کرتا ہے۔ جہاں دادا ،دادی،چچا،چچی ،پھوپھی وغیرہ ہمہ وقت موجود ہوتے ہیں اور ساتھ ہی بچوں کے اندر بڑوں کاادب واحترام اور کزنس کے ساتھ عفوودرگزر، اخوت اور ٹیم اسپرٹ جیسی متعدد خصوصیات پیدا ہوتی ہیں۔
بچے صبح و شام والدین کی شکلیں دیکھنے کے بجائے بھرپور خاندان کاحصہ بنتے ہیں اور زندگی کے نشیب و فراز سیکھتے ہیں۔ والدین کی غیرموجودگی میں خاندان کے دوسرے افراد ان کی نگہداشت کرلیتے ہیں، جب کہ تنہا رہنے والے والدین یا تو بچوں کو ہرجگہ لیے پھرتے ہیں یادوست احباب کے گھر چھوڑتے ہیں یا ملازمہ کے حوالے کرتے ہیںجو کہ باعث زحمت ہوتا ہے۔یہ سہارے غیرمحفوظ اور ناقابل اعتماد بھی ہوتے ہیںاور یہ دادا، دادی، چچا، چچی اور پھوپھی وغیرہ کا نعم البدل بھی نہیں ہوسکتے۔
جوائنٹ فیملی میں رہنے والے بچے رشتوں کی قدر و قیمت ،ایثار وقربانی، اتحاد، عفوودرگزر کے جذبوں سے سرشار ہوتے ہیں۔ تعلیمی اور کھیل کے میدان میں بچوں کی صلاحیتیں زیادہ نشوونما پاتی ہیں اور صحت مند مقابلہ بھی پیدا ہوتاہے۔
پردیس میں رہنے والے تنہا والدین کے بچے اس نام نہاد آزادی کی جو قیمت ادا کرتے ہیں، اس سے وہ تمام لوگ واقف ہیں جو قصداً یا سہواً اس صورت حال سے دوچار ہیں۔
ظاہرہے کہ جوائنٹ فیملی میں رزق کے وسائل میں برکت کا عنصر زیادہ ہوتاہے۔ مل باٹ کر بیشتر ذمہ داریاں بہتر نبھائی جاسکتی ہیں ۔ اگر کوئی اہل خانہ تنگ حالی کا شکار ہوجائے تو خاندان کے دوسرے افراد کا تعاون روز مرہ کی ضروریات زندگی میں میسر ہوتا ہے۔
بحیثیت اولاد ہرفرد کا یہ ذمہ داری ہے کہ والدین جنھوں نے اپنی تمام تر صلاحیتیں اور وسائل بروئے کار لاکر اس چمن کی آرائش کی ہے،ان کو اکیلا نہ چھوڑا جائے اور ان کی خدمت دوسرات کرکے دعائیں لی جائیں اور وہ ہمیں اور ہمارے بچوں کو دیکھ کر پھلیں پھولیں نہ کہ تنہا چھوڑ کراپنی دنیا الگ بسا لی جائے۔
بحیثیت مسلمان ہمارے پیارے رسول ؐ نے فرمایا ہے کہ والد جنت کا دروازہ ہے تو ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہے۔ جس کے ذریعہ ہمیں اپنی عاقبت سنوارنے کی کوشش شب و روز کرنی ہے نہ کہ مغرب کی طرح ’’فادر ڈے‘‘ اور ’’مدر ڈے‘‘ تک محدود رکھ کر بے غم ہوجائیں۔
خوش حال ومتحد معاشرے کی بنیاد متحد و مجتمع خاندان سے ہوسکتی ہے۔ جو لوگ خاندان میں متحد نہیں رہ سکتے ہوں وہ متحد معاشرے کی تکمیل کیسے کرسکتے ہیں؟ اس خوبی کی نشو ونما کے لیے اجتماعی مزاج ضروری ہے، جس میں عفوودرگزر ،اخوت وخلوص کا بول بالا ہو۔ اگر خاندان ہی نفسا نفسی کا شکار ہوں گے تو متحد و مستحکم معاشرہ کیسے تشکیل پائے گا؟
اسلامی معاشرہ اتحاد اور اجتماعیت سے ہی ترتیب و تشکیل پاسکتاہے، جس کی شروعات خاندانی زندگی سے ہوسکتی ہے۔ جہاں ہرفرد دوسروں کے لیے خیر کا پیکر ہو، جہاں ایثار،احسان، ایثار وقربانی اور وسعت قلبی کا چلن ہو۔ حدیث رسولؐ کے مطابق تم میں بہترین شخص وہ ہے جو اپنے گھروالوں کے لیے بہتر ہو۔اس حدیث کی روشنی میں ہرشخص اپنا محاسبہ کرے اور دیکھے کہ وہ گھروالوں کے ساتھ کتنامتحد ہے یا اس نے اپنی زندگی کو صرف اپنی بیوی اوربچوں تک محدود کررکھا ہے اور کیا اپنے بچوں کے اسی رویہ کا مستقبل میںوہ بحیثیت والد یا والدہ برداشت کرسکیں گے ۔ جب وہ جوائنٹ فیملی کا حصہ نہ بن کر اپنی دنیا الگ بسالیں گے ۔ مومن کی پہچان ہے کہ وہ دوسروں کے لیے وہی پسند کرتا ہے جو اپنے لیے پسند کرتاہے۔