کیاشکست خوردہ پارٹیاں ہار سے کچھ سبق حاصل کریں گی؟
عبدالغفار صدیقی
پانچ ریاستوں کے نتائج آچکے ہیں۔بعض لوگوں کے نزدیک یہ نتائج خلاف توقع ہیں،بعض نتیجوں نے ایگزٹ پول کی بھی پول کھول دی ہے۔آپ کہہ سکتے ہیں کہ فتح و شکست انتخابات کا حصہ ہے۔کبھی کوئی جیت جاتا ہے اور کبھی کوئی ہار جاتا ہے۔راجستھان میں تو کئی بار سے یہی دیکھنے میں آرہا تھا کہ حکومت میں رہنے والی پارٹی ہار جاتی تھی اس بار بھی ایسا ہی ہوا ہے۔اس لیے اس میں فکر کرنے کی کوئی بات نہیں ہے۔لیکن صرف اتنا کہہ دینے سے آپ خود کو تسلی دے سکتے ہیں۔اپنے ووٹروں کو نہیں۔ضروری ہے کہ فتح و شکست کے اسباب کا سنجیدگی سے جائزہ لیا جائے۔یہ جائزہ اس پہلو سے بھی لیا جانا چاہئے کہ یہ نتائج ملک کے آئین پر کس طرح اثر انداز ہوں گے۔بھارت کی ایکتا اور اکھنڈتا کو کس قدر متاثر کریں گے؟ان لوگوں کا کیا ہوگا جو آپ کو ایک متبادل اور مسیحا کے طور پر دیکھ رہے تھے؟یہ نتائج آئندہ پانچ سال تک کس کس کو خون کے آنسو رلائیں گے؟الیکش روز روز نہیں ہوتے،آئندہ پانچ سال میں کیا ہوگا کسی کو معلوم نہیں؟کیا دوبارہ یہ موقع ملے گا کہ آپ اپنی شکست کو فتح میں بدل سکیں؟یہ وہ سب سوالات ہیں جو ہارجانے والے امیدواروں اور اقتدار کھونے والی جماعتوں کے سامنے کھڑے ہیں اور جواب کے منتظر ہیں۔
مدھیہ پردیش میں تو خیر بی جے پی کی حکومت تھی،پہلے کم فرق سے تھی،اس بار اسے ایک بڑی فتح ملی ہے،لیکن چھتیس گڑھ اور راجستھان کے زخم کیسے مندمل ہوں گے؟بھارتیہ جنتا پارٹی کی فتح کا مطلب ہے کہ ملک میں نفرت کی جیت ہوئی ہے۔ایک خاص طبقہ کے خلاف رائے دہندگان نے ووٹ کیا ہے۔مدھیہ پردیش میں اگرچہ حکومت کے وزیرداخلہ کو شکست کا منھ دیکھنا پڑا ہے جن کے حکم پر بے گناہوں کے مکانات پر بلڈوزر چلائے گئے تھے اور ایک طرح سے یہ پیغام دیا گیا ہے کہ اس ملک میں نفرت کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے،لیکن یہ بھی سوچنے کا مقام ہے کہ بلڈوزر چلانے کا فیصلہ تنہا ایک شخص کا تو نہیں تھا، ایک جماعت کا فیصلہ تھا۔اس شخص کی پشت پر ایک حکومت تھی،اس لیے ایک فرد کی ہار سے پالیسی پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔
کانگریس کی شکست میں سب سے اہم رول عام آدمی پارٹی نے کیا ہے۔اس نے بیشتر سیٹوں پر اپنے امیدوار کھڑے کیے اور سیکولر ووٹوں کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کاکام کیا۔عام آدمی پارٹی کو لوگ بہت انصاف پسند پارٹی سمجھتے ہیں،بعض لوگ اسے بی جے پی کے متبادل کے طور پر دیکھتے ہیں۔لیکن میں یہ بات پہلے بھی کہہ چکا ہوں اور اب بھی میری یہی رائے ہے کہ کیجریوال صاحب سنگھ کے آدمی ہیں۔انھیں بی جے پی کی مدد کے لیے اتارا گیا ہے،وہ ریاستیں جہاں کانگریس کی حکومتیں تھیں،اور جہاں بی جے پی براہ راست جیت حاصل نہیں کرسکتی تھی ان ریاستوں میں سنگھ نے اپنی درپردہ حمایت سے اپنی بی ٹیم کو میدان میں اتارا تھا۔دہلی میں کانگریس کو اقتدار سے بے دخل کرنا بھارتیہ جنتا پارٹی کے بس کی بات نہیں تھی لیکن عام آدمی پارٹی نے وہ کام کردکھایا۔کرپشن دور کرنے کے نام پر لوگوں کا بے وقوف بنایا گیا حالانکہ کرپشن جوں کا توں موجود ہے۔دہلی میں ایک بھی کام ایسا نہیں کیا گیا جسے کہا جاسکے کہ یہ مسلمانوں کی فلاح و بہبود کا کام ہے۔اس کے بجائے تبلیغی جماعت پر کورونا پھیلانے کا الزام لگاکر نظام الدین مرکز پر تالے ڈلوادیے گئے۔دہلی فسادات میں پارٹی کا کردار مشتبہ رہا۔دوران فساد پارٹی کے ایک مسلم ایم ایل اے نے جب مسلمانوں کے زخموں پر مرہم لگانے کی کوشش کی تو اسے روک دیا گیا،اقلیتی کمیشن،وقف بورڈ اوراردو اکیڈمی کو برباد کردیا گیا۔آپ دہلی کے کسی بھی مسلم علاقے کو دیکھ لیجیے وہاں کوئی تبدیلی آپ کو نہیں ملے گی۔ تنگ گلیاں،گندگیوں کے ڈھیر آپ کو نظر آئیں گے۔یہی کام عآپ نے پنجاب میں کیا۔دونوں جگہ کانگریس کو ہٹا کر خود اقتدار میں آگئی۔آخراترپردیش، گجرات،مدھیہ پردیش اور راجستھان میں پارٹی کوئی قابل ذکر کارکردگی کیوں نہیں دکھا سکی۔ان ریاستوں میں بی جے پی اپنے دم پر کانگریس کو ہرا سکتی تھی تو پارٹی نے ووٹوں کی تقسیم کا کام تو کیا لیکن خود اقتدار میں پہنچنے کی پالیسی نہیں بنائی۔مجھے افسوس ہوتا ہے جب ہمارے دانشور آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ یہ بی جے پی کی بی ٹیم ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ یہ بات درست نہیں ہے۔البتہ اویسی صاحب بھی بغیرخاص تیاری کے میدان میں اترجاتے ہیں اور کہیں کہیں غیر عمداً ووٹوں کی تقسیم کا سبب بن جاتے ہیں،موصوف کا لب و لہجہ بھی آتشیں ہے جو برادران وطن کومتحد کرنے میں اہم رول ادا کرتا ہے۔
کانگریس کی ہار کادوسرا بڑا سبب پارٹی کے داخلی اختلافات ہیں۔پورے پانچ سال راجستھان میں گہلوت اور سچن پائلٹ لڑتے رہے۔ پارٹی ہائی کمان نے چنگاری پر راکھ ڈال کر بھلے ہی اس کو پانچ سال تک دبائے رکھا۔مگر دلوں کی کدورتیں کہاں ختم ہوتی ہیں۔سچن پائلٹ کے ووٹرس نے ان مقامات پر جہاں ان کی پسند کا امیدوار نہیں تھا اس کے خلاف ووٹ کرکے پارٹی کو شکست سے دوچار کردیا۔رہنماؤں کے درمیان اختلافات جب انا کا مسئلہ بن جاتے ہیں تو یہی نتائج سامنے آتے ہیں۔ایسے مواقع پر پارٹی کو سخت فیصلے لینے پڑتے ہیں،اپنے اس بازو کو جسم سے جدا کرنا پڑتا ہے جو مفلوج ہوچکا ہو اور باقی اعضاء کو بھی مفلوج کررہا ہو۔
تیسرا سبب خود کانگریس کی ڈھل مل پالیسیاں ہیں۔وہ دو قدم سیکولزم کی طرف بڑھتی ہے تو ایک قدم ہندتوا کی طرف کھینچ لیتی ہے۔ووٹ بینک کی پالیسی نے اسے گزشتہ ستر سال میں بہت نقصان پہنچایا ہے۔راجستھان میں چند مسلم نوجوانوں پر دہشت گردانہ واقعات میں مقدمات قائم ہوئے،وہاں کی ہائی کورٹ نے انھیں باعزت بری کردیا،ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ گہلوت سرکار عدالت کے فیصلہ کا خیر مقدم کرتی اور ان نوجوانوں کی باز آبادکاری کی کوششیں کرتی،مگر ہوا یہ کہ حکومت نے اس فیصلہ کو سپریم کورٹ میں چیلینج کرنے کا اعلان کردیا۔اگر اس موقع پر خاموشی بھی اختیار کرلی جاتی تو شاید بہتر ہوتا۔ اس کے باوجود بھی مسلمانوں نے مجبوراً فرقہ پرستی کے مقابلہ پر کانگریس کو ہی ووٹ دیا۔
یہ بات بہت اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ کانگریس ہو یا کوئی اور سیاسی جماعت جو خود کے سیکولر ہونے کا دعویٰ کرتی ہے اسے نرم اور گرم ہندتوا کے چکر میں نہیں پڑنا چاہئے۔بلکہ بھارتی آئین کے تحفظ کے لیے کمر بستہ ہونا چاہئے۔اسے اپنے قول و عمل سے یہ ثابت کرنا چاہئے کہ وہ انصاف پسند اور آئین پر یقین رکھنے والی جماعت ہے۔اس کے پروگراموں میں ملک کے تمام طبقات کی مناسب نمائندگی ہونا چاہئے۔بھارتی سیکولرزم میں مذہب انسان کا انفرادی معاملہ ہے،ہمارے سیاسی رہنماؤں کو ایسے ہر عمل سے گریز کرنا چاہئے جس سے سیکولرزم کی روح متاثر ہوتی ہو۔تلنگانہ میں بی آر ایس نے بھی اپنے موجودہ دور حکومت میں اکثریت کو خوش کرنے کے لیے مسلم مخالف بلوں پرپارلیمنٹ میں این ڈی اے کے حق میں ووٹ کیا یا ایوان سے واک آؤٹ کرکے اس کی مدد کی۔جس کا خمیازہ اسے بھگتنا پڑا۔
برسر اقتدار حکومتوں کے زیادہ تروزیروں کی ہار حکومت کی ناقص کارکردگی کا مظہر ہے۔سیاسی جماعتیں الیکشن کے دوران جو وعدے کرتی اور سبز باغ دکھاتی ہیں ان پر بعد میں پوری نہیں اترتیں،وہی امیدوار جو ووٹوں کے لیے ہر کس و ناکس کے دروازے پر دستک دیتا ہے جیتنے کے بعد موجود ہوتے ہوئے بھی ملاقات سے انکار کردیتا ہے۔بھارتیہ جنتا پارٹی کا مقابلہ آپ نرم ہندتویا جذباتی تقریروں سے نہیں کرسکتے،اگر آپ کو یہ مقابلہ جیتنا ہے تو نظام حکومت کو بہتر کرنا ہوگا۔عوام کے کام کرنا ہوں گے۔غریبوں اور پسماندہ طبقات کے لیے مختص اسکیموں اور بجٹ کو ایمانداری سے خرچ کرنا ہوگا۔ہر انسان پیسے لے کر ووٹ نہیں دیتا ہے۔اسمبلی اور پارلیمانی الیکشن میں پیسے لے کر ووٹ دینے والوں کی تعداد بہت کم ہوتی ہے۔بیشتر ووٹر حکومت کی کارکردگی کو سامنے رکھ کر ووٹ کرتے ہیں،کچھ فیصد ان ووٹروں کا ہوتا ہے جو برادری اور ذات سے متاثر ہوکر ووٹ کرتے ہیں۔شر کا مقابلہ خیر سے ہی کیا جاسکتا ہے۔یقین کیجیے کہ شر کے مقابلے خیر کو ہی فتح حاصل ہوتی ہے البتہ شرط یہ ہے کہ خیر خالص ہو،اس میں منافقت نہ ہو۔
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جب آل انڈیا سطح پر 36پارٹیوں کا گٹھ بندھن ’انڈیا‘ کے نام سے وجود میں لایا گیا تھا تو اسے صرف پارلیمانی الیکشن تک کے لیے کیوں مخصوص کردیا گیا۔اسمبلی الیکشن میں اس کا ٹیسٹ کرنے میں ’انا‘ کے علاوہ کیاچیز رکاوٹ تھی۔ کانگریس کی خوش فہمی تھی کہ ہم اپنے دم پر انتخاب جیت سکتے ہیں۔بلاشبہ آپ اپنے اس گمان میں سچے ہوسکتے ہیں لیکن اپنی ہم خیال اور خیر خواہ جماعتوں کو بھی اگردوچار سیٹیں دے کر اپنی خوشیوں میں شریک کرلیتے تو آپ کا کونسا بڑا نقصان ہوجاتا۔
اس بات پر بھی توجہ کی ضرورت ہے کہ دوران الیکشن جو لوگ قوم و ملک کے مسیحا بن کر کھڑے ہوتے ہیں اور انتخابات کے وقت غریبوں کے سامنے اپنی مسیحائی کا دم بھرتے ہیں وہ ہارنے کے بعد کہاں گم ہوجاتے ہیں۔اگر شکست کے بعد بھی اسی جذبہ کے ساتھ میدان میں رہا جائے اور مظلوموں کی دادرسی کی جائے تو ممکن ہے کہ آئندہ انتخابات میں قدرت کامیابی عطا کردے۔
بھارتی جنتا پارٹی کو شکست دینا آسان نہیں ہے۔صرف نعروں سے یہ کام نہیں کیا جاسکتا۔اس کی پشت پر آر ایس ایس جیسی منظم تنظیم کا ہاتھ ہے۔اس کے لاکھوں کارسیوک لوگوں کے دلوں میں اپنے لیے جگہ بنانے کے لیے دن رات محنت کرتے ہیں۔ہم سمجھتے ہیں کہ مودی جی اور یوگی جی کے بھاشن سے پارٹی جیت جاتی ہے۔یہ بھاشن تو آٹے میں نمک کا کام کرتے ہیں۔اصل کام ان کے کارسیوک کرتے ہیں اور باقی کام سیکولر پارٹیوں کی ناقص کارکردگی اور انتشار سے ہوجاتا ہے۔موجودہ وقت میں بی جے پی کے علاوہ کسی بھی سیاسی جماعت کے پاس منظم کیڈر نہیں ہے،خود غرض افراد کی ایک بھیڑ ہے جو نیتاؤں کو دیکھنے کے لیے جمع ہوجاتی ہے۔صرف بی جے پی کو کوسنے سے آپ ووٹروں کو مطمئن نہیں کرسکتے۔آپ کو خود بھی کچھ اچھے کام کرنے ہوں گے۔