کانگریس کی کیا مجبوری ہے کہ ۔۔۔۔؟
ڈاکٹر مظفر حسین غزالی
کانگریس یو پی اے کے پرانے ساتھیوں کے ساتھ کجریوال، نتیش کمار اور ممتا بنرجی کو ساتھ لینے کے لئے کیوں مجبور ہوئی ۔ جبکہ نتیش، ممتا اور کجریوال کے سی آر کے ساتھ مل کر کانگریس کے بغیر تیسرا مورچہ بنانے کی قواعد میں لگے تھے ۔ کانگریس یہ کیسے بھول گئی کہ وہ کجریوال ہی تھے جنہوں نے یو پی اے کو اقتدار سے بے دخل کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا ۔ دہلی میں آٹو رکشہ کے پیچھے لگے ” مرکز میں مودی دہلی میں کجریوال” والے پوسٹر بھی یاد نہیں ۔ کجریوال ہر پبلک میٹنگ میں فائلوں کا ایک بنڈل دکھا کر بتایا کرتے تھے کہ ان میں کانگریس کے کرپشن کے ثبوت ہیں ۔ ہم حکومت میں آئے تو ایک مہینہ کے اندر شیلا دکشت کو جیل میں ڈال دیں گے ۔ کانگریس اور سابق وزیر اعظم من موہن سنگھ کو بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی ۔ دراصل من موہن سنگھ جی کے دور میں سکھ اور مسلمانوں کا سیاست میں اعتماد بحال ہوا تھا ۔ وہ مین اسٹریم سیاست میں آنے کی کوشش کر رہے تھے ۔ یہ بات آر ایس ایس کیسے گوارہ کر سکتی تھی ۔ اس نے بی جے پی سے مسلمانوں کی منھ بھرائی کا سوال اٹھایا اور انا کے ذریعہ انڈیا اگینسٹ کرپشن کی تحریک شروع کراکر اروند کجریوال کو لیڈر بنا دیا ۔ جس نے مرکزی اقتدار سے ہی کانگریس کو بے دخل نہیں کیا بلکہ ریاستی انتخابات میں بھی بیت نقصان پہنچایا ۔
تیسرے مورچہ کی بحث میں بڑی چالاکی سے کانگریس کو شامل کیا گیا ۔ کہا یہ گیا کہ کانگریس کے بغیر اپوزیشن اتحاد کا کوئی مطلب نہیں ۔ دراصل آر ایس ایس اور بی جے پی کو کانگریس کے دوبارہ کھڑے ہونے کی امید نہیں تھی لیکن راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا نے کانگریس کی طاقت کا ملک کو احساس کرا دیا ۔ اسی مقبولیت کی وجہ سے کانگریس اپوزیشن اتحاد کے مرکز میں آگئی ۔ آر ایس ایس چاہتی تھی کہ نتیش کمار اس اتحاد کے کنوینر اور وزیر اعظم کا چیرہ بن جائیں ۔ لیکن کجریوال اور ممتا نے وزیر اعظم کے لئے ملیکارجن کھرگے کا نام آگے بڑھا دیا ۔ اس کے بعد نتیش کمار انڈیا اتحاد ست الگ ہو گئے ۔ ممتا اور کجریوال لوک سبھا الیکشن کے لئے اتحاد کے امیدواروں کے نام طے ہونے سے پہلے ہی اپنے امیدواروں کے ناموں کا اعلان کر دیا ۔ جبکہ کانگریس نے اپنا اتحاد دھرم نبھایا ۔ چنڈی گڑھ میئر کے الیکشن میں عام آدمی پارٹی کا ساتھ دیا ۔ پارلمنٹ میں بھی دہلی حکومت کے اختیارات سے متعلق بل پر عآپ کے موقف کی حمایت کی ۔ حالانکہ کجریوال نے اس کے بدلے راجستھان اور ندھیہ پردیش میں کانگریس کے مقابلہ امیدوار نا اتارنے کا وعدہ کیا تھا ۔ لیکن وہ اپنے وعدے پر قائم نہیں رہے ۔
ممتا بنرجی مغربی بنگال میں بار بار اکیلے چناؤ لڑنے کی بات کرتی رہی ہیں ۔ انہوں راہل گاندھی کی بھارت جوڑو نیائے یاترا کے مغربی بنگال پہنچنے کو پسند نہیں کیا ۔ بعد میں انہوں نے کانگریس کو دو سیٹیں دینے کی بات کی ۔ اسی طرح کجریوال دہلی، ہریانہ، پنجاب دو تہائی اور گوا کی ایک سیٹ چاہتے تھے ۔ بڑی مشکل سے دہلی میں کانگریس تین اور عآپ چار سیٹیں لڑنے پر تیار ہوئی ۔ پانچ ریاستوں میں عآپ اور کانگریس اتحاد پر عمل ہوگا ۔ مگر پنجاب میں کانگریس اور عام آدمی پارٹی الگ الگ الیکشن لڑیں گے ۔ وہاں جوتم پیزار ہوگی اور بی جے پی مزہ لے گی ۔ اروند کجریوال ای ڈی کے پہلے سمن کے بعد عدالت جا سکتے تھے ۔ لیکن وہ کبھی الیکشن کا تو کبھی کچھ اور بہانہ بنا کر اسے نظر انداز کرتے رہے ۔ ای ڈی کاروائی میں کجریوال کے تعاون نہ کرنے کو لے کر جب عدالت پہنچ گئی ۔ تو عین 2024 کے لوک سبھا انتخابات کے اعلان کے وقت 9 ویں سمن کو کجریوال نے دہلی ہائی کورٹ میں چیلنج کیا ۔ یہ کام ابھیشیک سنگھوی جیسے وکیل سے کرایا گیا ۔ یہ جانتے ہوئے کہ اسے راحت ملنا بہت مشکل ہے ۔ اس کے پیچھے شاید انتخابی فائدہ حاصل کرنا مقصود تھا ۔ ورنہ 8 بار سے ان کے ساتھ کچھ نہیں ہو رہا تھا، تو کیا؟ اب اس کے ساتھ ہونے والا تھا، لگتا ہے ۔ دسویں سمن کے ساتھ ہی انہیں ایسے وقت گرفتار کیا گیا جب راہل گاندھی کی بھارت جوڑو نیائے یاترا کے اختتام پر ممبئی میں بڑی ریلی ہو رہی تھی ۔ میڈیا نے ریلی کے بجائے کجریوال کی گرفتاری کو جگہ دی ۔ اس سے کجریوال اور حکومت کی ملی بھگت کا احساس ہوتا ہے ۔ کیونکہ گرفتاری کی وجہ سے راہل گاندھی کی ریلی کو نظر انداز کر دیا گیا ۔ ساتھ ہی انتخابی بانڈ کے معاملے کو بھی دبانے کی کوشش کی گئی ۔
جب کانگریس جانتی تھی کہ یہ سب اسی کی شکایت پر ہو رہا ہے تو وہ مودی کے ہاتھ میں ڈنڈا دینے کو تیار کیوں ہو گئی اسے اس معاملہ سے خود کو دور رکھنا چاہئے تھا ۔
دہلی میں ہوئی انڈیا اتحاد کی ریلی کو عآپ کجریوال کو گرفتاری کے بہانے ہیرو بنانا چاہتی تھی ۔ لیکن عین وقت پر کانگریس نے سمجھداری کا ثبوت دیا ۔ اس ریلی میں انڈیا اتحاد کے ساتھیوں نے پانچ بنیادی سوال اٹھائے جن میں مہنگائی، روزگار، سی بی آئی، ای ڈی، انکم ٹیکس یہاں تک کہ الیکشن کمیشن کے حکومت کی منشاء کے مطابق کام کرنے کا سوال اٹھایا، یہ بھی کہا گیا کہ عین الیکشن سے پہلے دو دو وزیر اعلیٰ کو کیوں گرفتار کیا گیا؟ الیکٹرورل بانڈ کےفرضی واڑے اور اپوزیشن خاص طور پر کانگریس کے کھاتوں کو سیز کرنے سے صاف شفاف الیکشن کیسے ہوگا؟ یہ بھی کہا گیا کہ جن پر بھی بد عنوانی کے الزامات تھے وہ بی جے پی میں شامل ہونے کے بعد کیسے دھل گئے ۔ پارٹیوں کو توڑنے کو بھی مدعا بنایا گیا ۔ دہلی میں عام آدمی پارٹی نے اپنے موجودہ ممبران اسمبلی کو امیدوار بنایا یے جبکہ کانگریس نے کنہیا کمار کو ایسٹ دہلی، جے پرکاش اگروال چاندنی چوک اور ادت راج کو ساوتھ دہلی سے امیدوار بنایا ہے ۔ کنہیا کمار کو دو مرتبہ کے ممبر پارلیمنٹ منوج تیواری کے خلاف اتارا گیا ہے ۔
کانگریس پروپیگنڈہ سے بہت جلد متاثر ہو جاتی ہے ۔ وہ اپنے نظریہ کو نظرانداز کر اپنے مخالف کے جال میں پھنس جاتی ہے ۔ اس کا سوفٹ ہندوتوا پر عمل یا پولرائزیشن کے جال میں پھنسنا بھی یہی بتاتا ہے ۔ وہ سکھ یا مسلمانوں کا نام لینے سے ڈرتی ہے کہ کہیں اسے ہندو مخالف نہ سمجھ لیا جائے ۔ اس میں ووٹروں کی نہیں خود کانگریسیوں کی غلطی ہے ۔ وہ اکثریت کو ساتھ لانے اور مخالف کی کمزوری بتانے کے چکر میں کچھ بھی بول جاتے ہیں ۔ مثلاً چائے والا، کمین، چوکیدار چورہے وغیرہ کس نے کہا ۔ ان باتوں کو مودی جی نے بھنا لیا ۔ اسی طرح راجستھان میں کنہیا کا مسئلہ بی جے پی نے اٹھایا لیکن کانگریس پہلو خان، رکبر وغیرہ کا نام لینے سے بچتی رہی ۔ یہی معاملہ عآپ اور کانگریس کے ساتھ کا بھی ہے ۔ سی اے اے، دفعہ 370، بلقیس بانو اور کووڈ میں تبلیغی جماعت کے لوگوں کے بارے میں کجریوال کی رائے کیا تھی؟ اس وقت وہ اور ان کے ساتھی شراب پالیسی میں گڑبڑی اور بدعنوانی کی وجہ سے جیل میں ہیں ۔ ایسے میں کانگریس کا عام آدمی پارٹی کو ساتھ لینے سے نقصان ہوگا ۔ کانگریس کے پاس اس کے بچاؤ میں کہنے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے ۔ عآپ کو ساتھ لینے کی کیا مجبوری ہے یہ کانگریس ہی بہتر جاتی ہوگی ۔ عام آدمی کو یہ ساتھ سمجھ نہیں آرہا ۔