ملک میں سنگین ہوتی بے روزگاری
ڈاکٹر مظفر حسین غزالی
بہت ہوئی بے روزگاری ک مار اب کی بار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کی سرکار، اس نعرے اور ہر سال 2 کروڑ نوکریاں فراہم کرنے کے وعدہ کے ساتھ بی جے پی اقتدار میں آئی تھی ۔ معیشت کے تناسب روزگار کے نہ بڑھنے سے گزشتہ 10 سالوں میں نئی نوکریاں پیدا ہونا تو دور، وہ لوگ بھی بے روزگار ہو گئے جو پہلے سے ملازمت میں تھے ۔ 17 جولائی 2023 کو نیتی آیوگ نے اعداد جاری کر بتایا کہ 2015، 2016، 2019، 2021 اور 2022 کے دوران ریکارڈ 13.5 کروڑ لوگ کثیر جہتی غربت سے مکت ہوئے ۔ 15 جنوری 2024 کو نیتی آیوگ نے اعداد جاری کر گزشتہ 9 برسوں میں 24.82 کروڑ لوگوں کے غربت سے نجات پانے کی بات کہی ۔ جبکہ نومبر 2016 کی نوٹ بندی کے متعلق بنگلور کی عزیز پریم جی یونیورسٹی کے سینٹر فار سسٹےنیبل ایمپلائمنٹ (سی ایس ای) کی رپورٹ میں ایک چونکا دینے والی بات سامنے آئی ۔ اس کے مطابق نوٹ بندی کے بعد 50 لاکھ لوگ اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے ۔ سی ایس ای کی رپورٹ ‘اسٹیٹ آف ورکنگ انڈیا’ کے مطابق، نوٹ بندی کے بعد نہ صرف کروڑوں لوگ بے روزگار ہو ئے بلکہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ گزشتہ دہائی کے دوران ملک میں بے روزگاری کی شرح میں مسلسل اضافہ ہوا ہے ۔ رپورٹ کے مطابق 20 سے 24 سال کی عمر کے افراد سب سے زیادہ بے روزگاری سے متاثر ہوئے ہیں ۔
روزگار کی صورتحال کے متعلق سینٹر فار مانیٹرنگ دی انڈین اکانومی سی ایم آئی ای ۔ سی پی ڈی ایکس کی رپورٹیں بے روزگاری کی شرح 8 فیصد کے قریب بتاتی ہیں ۔ یہ 2000 سے 2011 کی اوسط شرح سے دوگنی سے زیادہ ہے ۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نہ صرف اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقے میں بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے بلکہ کم تعلیم یافتہ افراد کے لئے بھی روزگار کے مواقع کم ہوئے ہیں جو زیادہ تر غیر منظم شعبے میں کام کر رہے ہیں ۔ پروفیسر ارون کمار کے مطابق 94 فیصد لوگ غیر منظم شعبہ میں کام کرتے ہیں اور 45 فیصد کی پیدوار ہوتی ہے ۔ ایسے میں غریبوں کی تعداد میں کمی کی بات سمجھ میں نہیں آتی ۔ سینٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکانومی کی رپورٹ کے مطابق اکتوبر 2023 میں بے روزگاری کی شرح مئی 2021 کے بعد سب سے زیادہ 10.05 فیصد ہوگئی ۔ اس عرصے کے دوران دیہی بے روزگاری 6.2 فیصد سے بڑھ کر 10.82 فیصد جبکہ شہری بے روزگاری میں 8.44 فیصد تک کا اضافہ ہوا ۔ یہ کووڈ کا دور تھا جو بہت پریشاانی کا وقت تھا ۔ بڑھتی ہوئی بے روزگاری کے ساتھ مزدوروں کی شرکت کی گرتی ہوئی شرح نے اس مسئلے کو انتہائی پیچیدہ بنا دیا ۔ یہ شرح لیبر فورس کے تناسب کی نشاندہی کرتی ہے، یعنی 15-64 سال کی عمر کے لوگوں کی کل تعداد، کام کرنے کے خواہشمند اور ملازمت کرنے والے یا ملازمت حاصل کرنے کی کوشش کرنے والے افراد کی تعداد ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ کم ہوتے مواقع کی وجہ سے مایوسی کا شکار ہیں وہ روزگار کی طرف مائل نہیں ہیں ۔ نومبر 2017 سے روزگار میں کمی آرہی ہے ۔ سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ روزگار میں مسلسل کمی ہو رہی ہے جبکہ 2.5 کروڑ لوگ ہر سال روزگار مانگنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں ۔ افرادی قوت میں اضافے کا مطلب ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ کام کے لئے دستیاب ہیں لیکن حکومت انہیں کام دینے کی حالت میں نہیں ہے ۔ نوٹ بندی اور کووڈ کے بعد لیبر فورس سکڑ گئی تھی ۔ لوگوں کو کام ملنے کی کوئی امید دکھائی نہیں دے رہی تھی، اس لئے کام کی تلاش کرنے والوں نے کام ملنے کی امید چھوڑ دی تھی ۔
ماہر معاشیات راہل لال کے مطابق حال ہی میں ایئر انڈیا نے 180 ملازمین کو نکال دیا ہے ۔ اسپائس جیٹ اپنے 15 فیصد ملازمین کو فارغ کرنے جا رہی ہے ۔ سال 2019 میں اسپائس جیٹ کے پاس 16 ہزار ملازمین کا ایک گروپ تھا لیکن تباہ کن برطرفی کے بعد اب ملازمین کی تعداد کم ہو کر صرف 9 ہزار رہ گئی ہے جس میں 15 فیصد کی برطرفی دوبارہ ہونے والی ہے ۔ کچھ سال قبل جیٹ ایئرویز کے بند ہونے کی وجہ سے کمپنی کے تقریباً 16,000 پے رول ملازمین اور 6,000 کنٹریکٹ ملازمین بے روزگار ہو گئے تھے ۔ روزگار کے حوالے سے کچھ اور اعداد و شمار بھی ہیں، جو اور بھی خوفناک ہیں ۔
ویدانتا نے 49,141 لوگوں کو برطرف کیا، جبکہ فیوچر انٹرپرائز نے 10,539 لوگوں کو فارغ کیا ۔ اسی وقت صحت کے شعبے کی ایک مشہور کمپنی فورٹس ہیلتھ کیئر نے 18,000 لوگوں کو نوکری سے نکال دیا۔ ٹیک مہندرا نے 10,470 ملازمین کو کم کیا ہے ۔ سیل ایک پبلک سیکٹر کی کمپنی ہے، اس نے 30,413 لوگوں کو فارغ کیا ہے، جب کہ بی ایس این ایل نے 12,765 لوگوں کی نوکری ختم کر دی ۔ انڈین آئل کارپوریشن نے بھی 11,924 لوگوں کو نوکری سے نکال دیا ۔ اس طرح صرف تین سرکاری کمپنیوں نے تقریباً 55000 ملازمین کو کم کیا ہے ۔ حکومت روزگار پیدا کرنے کے بجائے صرف اپنی ڈیویڈنڈ ادا کرنے والی کمپنیوں میں سرمایہ کاری میں سنجیدہ رہی ہے ۔
سینٹر فار مانیٹرنگ دی انڈین اکانومی کے مطابق 13-2014 میں 1443 کمپنیوں نے 67 لاکھ روزگار فراہم کرنے کے اعداد جاری کئے، وہیں 16-2017 میں 3441 کمپنیوں کے 84 لاکھ روزگار فراہم کرنے کی خبر آئی ۔ اگر اس نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو کمپنیوں کی تعداد میں دگنے سے زیادہ اضافے کے باوجود روزگار کے اعداد و شمار میں کوئی خاص اضافہ نہیں ہوا ۔ اس طرح حکومت اپنے ابتدائی دور میں بھی سالانہ 2 کروڑ روزگار پیدا کرنے میں سنجیدہ نہیں رہی ۔ انڈیا ایمپلائمنٹ رپورٹ بھی مودی حکومت کی ناکامی کو ظاہر کرتی ہے ۔ اس کے مطابق بھارت کے کل بےروزگار افراد میں 83 فیصد نوجوان ہیں ۔ یا تو ان کے پاس نوکری نہیں ہے یا وہ دد تہائی کم اجرت پر برے حالات میں کام کر رہے ہیں ۔ رپورٹ کے مطابق 65.7 فیصد تعلیم یافتہ نوجوان بے روزگار ہیں ۔ جبکہ 2000 میں ان کی تعداد 35.2 فیصد تھی ۔ 2022 میں یہ تعداد بڑھ کر تقریباً دو گنی ہو گئی ہے ۔
بھارت کی معیشت میں روزگار کے لحاظ سے چھوٹی اور درمیانی صنعتیں بہت اہم ہیں ۔ نوٹ بندی، جی ایس ٹی اور لاک ڈاؤن نے چھوٹی اور درمیانی صنعتوں کی کمر توڑ دی ۔ آر بی آئی کے مطابق چھوٹی اور درمیانی صنعتیں بھاری قرضوں میں ڈوب رہی ہیں ۔ صرف نوٹ بندی کے اثر کی وجہ سے، مارچ 2017 تک قرض کے ڈیفالٹ کا مارجن 8،249 کروڑ روپے تھا، جو مارچ 2018 تک بڑھ کر 16،111 کروڑ روپے ہو گیا ۔
ایسا مانا جا رہا ہے کہ صرف نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کی وجہ سے 2 کروڑ سے زیادہ لوگ بے روزگار ہو گئے ہیں ۔ آل انڈیا مینوفیکچرنگ آرگنائزیشن کے مطابق صرف چھوٹی اور درمیانی صنعتوں میں جی ایس ٹی کی وجہ سے 35 لاکھ لوگ بے روزگار ہوئے ہیں، جب کہ اگر غیر منظم شعبے کے بے روزگار لوگوں کو اس میں شامل کیا جائے تو یہ تعداد 2 کروڑ تک پہنچ سکتی ہے ۔
معیشت کو متحرک کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہماری معیشت برآمدات پر مبنی ہو، لیکن بھارت کی برآمدات ایک عرصے سے جمود کا شکار ہیں ۔ اس صورتحال میں ملک کی ٹیکسٹائل انڈسٹری پوری معیشت میں جان ڈال سکتی ہے ۔ بھارت میں زراعت کے بعد سب سے زیادہ روزگار فراہم کرنے والی ٹیکسٹائل انڈسٹری نے تقریباً 3.5 کروڑ لوگوں کو روزگار فراہم کیا، جب کہ برآمدی شعبے میں اس کا حصہ 24.6 فیصد تھا ۔ اس طرح ٹیکسٹائل کی صنعت نہ صرف برآمدات پر مبنی معیشت بلکہ روزگار پر مبنی معیشت کے لیے بھی ناگزیر ہے ۔ رواں سال ملک کی ٹیکسٹائل برآمدات کے لیے اچھا ثابت نہیں ہو رہا ۔ کلاتھنگ مینوفیکچررز ایسوسی ایشن آف انڈیا (سی ایم آئی) کے اعداد و شمار کے مطابق، پچھلے سال کے مقابلے اس مالی سال اپریل اور مئی میں ٹیکسٹائل کی برآمدات میں بالترتیب 23 اور 17 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے ۔ حکومت اپنی کمزور کارکردگی کی وجہ یورپ اور امریکہ میں مانگ کی کمی کو قرار دیتی ہے ۔ لیکن اگر ہم مثالوں کو دیکھیں تو مسئلہ عالمی منڈیوں کی حالت کا نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق ملکی حالات سے ہے ۔
موجودہ حکومت کا کہنا ہے کہ اب ملک بھر میں ہر روز 27 کلومیٹر قومی شاہراہیں بنتی ہیں جو کہ سابقہ حکومت سے کہیں زیادہ ہیں، ایسے میں روزگار کیسے کم ہو سکتا ہے ۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ اب سڑک کی تعمیر کے عمل کو کافی حد تک میکانائز کر دیا گیا ہے ۔ ایسے میں سڑکوں کی تعمیر کی رفتار بڑھنے سے گاڑیوں کی رفتار بڑھتی ہے روزگار کے مواقع نہیں ۔ بے روزگاری کو دور کرنے کے لئے چین کی طرح ہمیں بھی محنت کش صنعتوں کو فروغ دینا ہو گا اور حکومت کو کچھ ایسا کرنا ہو گا جس سے صنعت کاروں کی محنت مزدوری والی صنعتوں کی طرف دلچسپی بڑھے ۔
درحقیقت، 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں ووٹ ڈالنے سے پہلے، عوام کو یہ سمجھنا ہوگا کہ بے روزگاری ہمیں اقتصادی عدم مساوات کی گہری کھائی کی طرف لے جا رہی ہے ۔ حکومت کو 10 سالوں میں 2 کروڑ سالانہ کی شرح سے کم از کم 20 کروڑ نوکریاں فراہم کرنا تھیں، لیکن اس حکومت کے دوران بے روزگاری ایک سنگین مسئلہ بنا رہا ۔ ہمیں ترقی کو روزگار پر مبنی بنانا چاہئے ۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ حکومت روزگار فراہم کرنے والے مخصوص شعبوں کی نشاندہی کرے اور انہیں ترجیح بھی دے ۔ ایم ایس ایم ای اسٹارٹ اپ اسی مقصد سے شروع ہوئے تھے لیکن نوٹ بندی، جی ایس ٹی نے ان کی قمر توڑ دی ۔ رہی سہی کسر لاک ڈاؤن نے پوری کر دی ۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ بھارت کی معیشت میں خود روزگاری، خاندانی پیشوں میں نمایاں کمی آئی ہے اور اس کی جگہ یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدوروں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے ۔
جی ڈی پی یا ارب پتیوں کے بڑھنے سے روزگار میں اضافہ نہیں ہو رہا ۔ معیشت کے تناسب میں روزگار کے مواقع کا نہ بڑھنا لمبے وقت سے بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک کی ترقی کو روزگار پر مبنی بنائیں ۔ اس تناظر میں، کانگریس کے راہل گاندھی کے ذریعہ شروع کیا گیا یوتھ جسٹس ایک اہم حل ہو سکتا ہے، مرکزی حکومت میں 30 لاکھ خالی آسامیوں کو پُر کیا جائے ۔ اور نوجوانوں کے لئے 5000 کروڑ روپے کے اسٹارٹ اپ فنڈ کی تشکیل ایک تاریخی قدم ہو سکتا ہے ۔ کانگریس کی طرف سے گیگ اکانومی میں سماجی تحفظ کی بات بھی کی جا رہی ہے ۔ درحقیقت، روزگار پیدا کرنا مودی حکومت کی کبھی ترجیح نہیں رہی ۔ جس کی وجہ سے ملک اس وقت آزادی کے بعد سے بدترین بے روزگاری کے بحران کا سامنا کر رہا ہے ۔ حکومت سنجیدگی سے اس پر دھیان دینے کے بجائے اعداد و شمار کے جال میں پھنسا کر گمراہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ اب یہ عوام کو طے کرنا ہے کہ اس مسئلہ سے نمپٹنے کے لئے اسے کیا کرنا ہے ۔ آنے والا انتخاب اس کا بہترین موقع ہے ۔