ہماری دعائیں بے اثر کیوں ہوگئیں؟

تدبیر کی انتہا دعا کا نقطۂ آغاز ہے

عبدالغفار صدیقی

اللہ کے سامنے اپنی حاجت روائی کا اظہار کا نام دعا ہے۔اللہ بادشاہوں کا بادشاہ ،شہنشاہ کائنات ہے ۔تمام خزانوں کی کنجیاں اس کی دسترس میں ہیں ۔وہ ہر شئی کا مالک ہے اور اپنے جملہ فیصلوں میں مختار ہے ۔وہ دے تو کوئی روک نہیں سکتا اور نہ دے تو کوئی دلوا نہیں سکتا۔وہ اپنے بندوں کی شہ رگ سے قریب ہے ،وہ ہروقت اورہر کسی کی سننے پر قادر ہے ۔اس کے دربار میں کسی سفارش اور رشوت کی ضرورت نہیں ۔اس لیے اسی سے مانگنا ،طلب کرنااور اسی کے سامنے عرض کرنا ہی مناسب اور مبنی برعدل رویہ ہے ۔
اِس وقت مسلمانوں میں دین کی صحیح معلومات کا فقدان ہے۔اس لیے دین کے متعلق بہت سی غلط فہمیاں رائج ہیں ۔دعا کے تعلق سے بھی بہت سی غلط فہمیاں رائج ہیں ۔آپ جس سے ملئے ،وہ آپ سے دعائوں میں یاد رکھنے کی درخواست کرتا ہے ۔اجتماعی نمازوں کے(جمعہ و عیدین )بعد طول طویل دعائیں مانگے جانے کا رواج عام ہے ۔نماز پانچ منٹ میں پڑھادی جاتی ہے اور دعابیس منٹ تک کی جاتی ہے ۔دینی اجتماعات میں دعا کو ایک خاص مقام حاصل ہے ۔ایک بڑی تعداد نہ اجتماع میں شریک ہوتی ہے ،نہ علماء کے بیانات سے مستفیض ہوتی ہے لیکن دعا میں بڑے اہتمام سے شامل ہوتی ہے ۔منتظمین بھی اجتماع کے عناوین اور مقررین کے اسمائے گرامی سے زیادہ دعا کا اشتہار کرتے ہیں ،امت میں دعا کرانے کے ماہرین بھی پائے جاتے ہیں ۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دعا ایک تجارت بن گئی ہے اور ائمہ وعلماء اس کاروبار کے ٹھیکیدار ہیں ۔
گزشتہ چالیس سال سے میں دیکھ رہا ہوں کہ امت نے اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے ،کرانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے ۔اس نے ہر موقع پر پرسوز دعائوں کا اہتمام کیا ہے ۔جتنے زندہ مردہ واسطے اور وسیلے ہوسکتے تھے سب پیش کیے ہیں۔مگر نتیجہ صفر ہے۔کبھی صدام حسین کی زندگی کے لیے دعائیں مانگی ہیں ،کبھی اپنے ملک کی ظالم حکومت کی شکست کے لیے ہاتھ اٹھائے ہیں ،کبھی بابری مسجد کی حفاظت کے لیے دست سوال دراز کیا ہے تو کبھی مسلم پرسنل لاء میں عدم مداخلت کی التجائیں کی ہیں ۔مسجدوں ،مدرسوں ،خانقاہوں کے تحفظ اور وحدت امت کی دعائیں تو ہر نماز میں کی جاتی ہیں ۔مگر گزشتہ چالیس سال سے ان میں سے کوئی دعا بھی قبول نہیں ہوئی ۔صدام حسین تختہ دار پر لٹکادیے گئے ،ظالموں کو اقتدار میں مزید کامیابیاں ملتی رہیں ،مسجدیں شہید ہوتی رہیں ،پرسنل لاء کا وجود ہی خطرے میں ہے،مدارس لب دم ہیں اور امت کے انتشار میں دن دونی رات چوگنی ترقی ہورہی ہے ۔بقول آتشؔ
نہ پوچھ عالم برگشتہ طالعی آتش
برستی آگ جو باراں کی آرزو کرتے
چالیس سال کا تو یہ میرا ذاتی تجربہ ہے ۔ماضی قریب کی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ یہ صورت حال کئی صدیوں پر محیط ہے ۔ایک ڈاکٹر اور ایک حکیم بھی جب کسی مریض کا علاج کرتا ہے تو اپنی دوائوں کی ناکامی کے اسباب پر غور رکرتا ہے ۔جدید ٹیکنالوجی کی آمد کے بعد مختلف طرح کے ٹیسٹ کرتا ہے ،خود مریض بھی چار دن دوا کھانے کے بعد اگر افاقہ محسوس نہیں کرتا تو ڈاکٹر بدل دیتا ہے ۔لیکن ہم کئی سو سال سے غلبہ کی دعائیں کررہے ہیں ،اللہ سے تمام واسطے اور وسیلے کے ساتھ عزت و ناموس کی بھیک مانگ رہے ہیں مگر مزید ذلیل و رسوا ہوتے جارہے ہیں اس کے باوجود کبھی اس بات پر غور نہیں کرتے کہ آخر ہماری دعائیں قبول کیوں نہیں ہورہی ہیں ؟
دعا کی قبولیت کا انحصار دو باتوں پر ہے ۔پہلی بات یہ ہے کہ ہم جو چیزخدا سے مانگ رہے ہیں اس کے حصول کے لیے خود ہم نے کیا کوششیں کی ہیں ۔ایک طالب علم امتحان میں کامیابی کی دعا سے پہلے یہ جائزہ لینا چاہئے کہ وہ اسکول کتنے دن گیا ہے ؟جو کچھ اسے پڑھایا گیا ہے اسے اس نے کس قدر سمجھا ہے ؟استاذ کی ہدایات کا کس قدر پاس و لحاظ کیا ہے ؟امتحان کی تیاری کس پیمانے پرکی ہے ؟اگر اس نے ہر قدم صحیح اٹھایا ہے اور اپنی جملہ تدابیر استعمال کی ہیں تو اسے اپنی دعا کا نتیجہ مثبت ملے گا ۔ورنہ اس کی دعائیں اس کے منہ پر ماردی جائیں گی اسی طرح ذرا سوچئے ،ہم نے بابری مسجد کو بچانے کے لیے کیا تدبیر اختیار کی تھیں،اسے گرانے والے پھاوڑے ،کدال اور بیلچے لے کر وہاں پہنچے تھے اور ہم اللہ کے سامنے ہاتھ پھیلائے بیٹھے تھے ۔ہم نے اپنے پرسنل لاء پر خود عمل نہیں کیا ،ظاہر ہے جو چیز استعمال میں رہتی ایک دن ضائع ہوجاتی ہے ۔ظالم حکومت سے نجات پانے کے لیے بھی ہم نے اظہار تمنا اوردعائوں کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ہمارے مقابل والوں نے اسباب سے فائدہ اٹھا کر ہمیں محکوم بنالیا اور ہم نے ان اسباب کو ہاتھ تک لگانا گوارہ نہیں کیا ،ہم مالا ہی جپتے رہے ۔کیا ہمیں نہیں معلوم کہ رسول اکرم ﷺ نے میدان بدر میں اہل ایمان کی صفیں درست کرنے کے بعد بارگاہ الٰہی میں ہاتھ اٹھائے تھے ۔کیا اس وقت کا ہر بالغ عاقل مسلمان اپنے ہتھیار لے کر میدان میں نہیں آگیا تھا ۔کیا انھوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش نہیں کیے تھے ۔اللہ کے رسول چاہتے تو مدینہ میں رہ کر ہی دعا فرمادیتے اور اللہ کافروں کا منہ کالا کردیتا ۔لیکن یہ اللہ کا ضابطہ نہیں ہے ۔اس کا ضابطہ یہ ہے کہ پہلے ممکنہ تدابیر اختیار کی جائیں اور اس کے بعد اس سے دعائیں کی جائیں ۔ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے والوں کی دعائیں وہ منہ پر ماردیتا ہے ۔رسول ﷺ اور صحابہ کرام کی پوری زندگی اس بات پر گواہ ہے کہ انھوں نے پہلے تدابیر اختیار کیں اور اس کے بعد اپنے رب سے کامیابی کی التجا کی ۔جب جب تدابیر کے اختیار کرنے یا صحیح استعمال کرنے میں ذرا سی چوک ہوئی تو فتح بھی شکست میں بدل گئی ۔میدان احد میں نبی اکرم ﷺ کی انجانے میںایک ہدایت کی ان دیکھی کرنے کا انجام کتنے صحابہ کوآب حیات سے محروم کرگیااور ہم چاہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ کی کوئی بات نہ مانیں ،بلکہ ان کے احکام کا مذاق اڑائیں اور ہماری دعائیں قبول ہوجائیں یہ کیسے ممکن ہے ؟سیرت کامطالعہ بتاتا ہے کہ دعائوں کا آغاز وہاں سے ہوتا ہے جہاں تدابیر کی انتہا ہوتی ہے ۔
قبولیت دعا کے لیے دوسری ضروری بات یہ ہے کہ جس سے ہم دعا کررہے ہیں اس سے ہمارا رشتہ و تعلق کیسا ہے ؟جس انسان سے ہمارے تعلقات ٹھیک نہیں ہوتے ہم اس سے کوئی چیز مانگنا گوارہ نہیں کرتے ،ہم میں سے کوئی بھی اپنے دشمنوں کی مدد نہیں کرتا اور کوئی اپنے دشمن سے مدد کی امیدنہیں رکھتا ۔تعلق جس قدر گہرا ہوگا اسی قدر امیدیں برآئیں گی ۔ضرورت پڑنے پر ہماری نظر ان رشتہ داروں اور دوستوں کی طرف جاتی ہے جن سے ہمارے رشتے بہت مضبوط ہوتے ہیں ۔رشتوں اور تعلقات کی مضبوطی ایک دوسرے کے احترام،باہمی معاونت اور اطاعت و فرمانبرداری پر منحصر ہے ۔کسی کے ہم کام آتے ہیں تو وہ ہمارے کام آتا ہے ۔مگر اللہ سے دعا کرتے وقت ہم اس سے تعلقات کی نوعیت کا جائزہ نہیں لیتے ۔بس جو منہ میں آتا ہے مانگ لیتے ہیں ۔ایسا لگتا ہے کہ(نعوذ باللہ ) اللہ ہمارامحکوم ہے ،اس نے ہمارا کچھ لے کر کھالیا ہے اور ہماری مرادیں پوری کرنے کے لیے مجبور ہے ۔جب کہ اس معاملہ میں اللہ کا ضابطہ بھی وہی جو انسانوں کا ہے ۔جس طرح ہماری مدد کووہی لوگ آتے ہیں جن کی مدد ہم نے کی ہوتی ہے اسی طرح اللہ بھی ان ہی کی مدد کرتا ہے جو اس کی مدد کرتا ہے ۔(ان تنصرواللہ ینصرکم۔سورہ محمد ۔7)وہ انھیں لوگوں پر رحم کرتا ہے جو اس کے بندوں پر رحم کرتے ہیں ۔(ارحموا من فی الارض یرحمکم من فی السماء۔ابودائود)۔ہماری زندگی اللہ کی نافرمانیوں کا مظہر ہو،ہم اس کے قوانین کو پامال کریں ،ہم اس کے بندوں پر ظلم کریں ،اور اس سے رحم و کرم اور غلبہ و استحکام کی توقع کریں یہ حماقت نہیں تو اور کیا ہے ۔
میدان عمل میں آئیے ،معاصرقوموں سے مقابلہ کیجیے ،وسائل دنیا کا استعمال کیجیے ،کامیابیوں کے حصول کی منصوبہ بندی کیجیے ،اپنی کوتاہیوں کا جائزہ لیجیے ،ان کے تدارک اور تلافی کے لیے قدم اٹھائیے ،اس کے بعد اللہ کے سامنے دست سوال دراز کیجیے ۔وہ آپ کو مایوس نہیں کرے گا۔اس کا وعدہ برحق ہے ،اس نے کل بھی اپنے مخلص اورباعمل بندوں کی مدد کی تھی ،وہ آج بھی کررہا ہے اور آئندہ بھی کرے گا ۔آپ کی ذمہ داری تو صرف اتنی ہے کہ اپنا سب کچھ اس کی راہ میں لگادیجیے اور اس کے سامنے سر تسلیم خم کردیجئے۔جس نے حضرت ابراہیم ؑ کو جلتی آگ سے بچایا ہے ،جس نے سیلاب سے حضرت نوح ؑ کی حفاظت کی ہے ،جس نے اندھیرے کنوئیں سے حضرت یوسف ؑ کو نکال کر بادشاہ مصر بنایا ہے اور جس نے حضرت محمد ﷺ کو فتح و نصرت عطا فرمائی ہے، وہ زندہ جاوید ہستی آپ کی بھی مدد کرنے کے لیے تیار ہے بس آپ کو اس کی مدد کا مستحق بنانا ہے ۔
فضائے بدر پیدا کر، فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار، اب بھی