امانت الله کے دشمنو! بتاؤ تمھیں کیا ملا؟
ایم ودود ساجد
آخر کار 8-9 مہینوں کے بعد اوکھلا کے ممبر اسمبلی امانت الله خان کو "بلا مقابلہ” دہلی وقف بورڈ کا چیرمین منتخب کرلیا گیا۔ یہ ان کا تیسرا ٹرم ہے۔
پہلا ٹرم اس وقت جلد ہی ختم ہوگیا تھا جب دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر نجیب جنگ نے ایک سازش کے تحت دو ممبروں کے ذریعہ استعفی دئے جانے کے بعد امانت الله کو برطرف کردیا تھا۔دوسرا ٹرم میعاد پوری ہونے سے پہلے اس لئے ختم ہوگیا تھا کہ اسمبلی کی دوسری میعاد ختم ہوگئی تھی۔
دہلی وقف بورڈ دہلی کی وقف مساجد کے ائمہ وموذنین کی تنخواہیں اور بیواؤں ویتیموں کے وظائف ادا کرتا ہے۔ اس کی اربوں کی وقف جائیدادیں ہیں ـ لال قلعہ کے سامنے فتح پوری جیسے علاقہ میں اس کی درجنوں بڑی بڑی دوکانیں ہیں جن کا بہت حقیر کرایہ آتا تھا۔اتنا حقیر کہ بتاتے ہوئے بھی شرم آئے۔ یعنی دوکاندار کو دوکان سے آمدنی لاکھوں میں مگر کرایہ سو دو سو روپیہ۔ جائیدادیں اربوں کی مگر آمدنی لاکھوں میں بھی نہیں تھی۔ امانت الله نے 2015 میں چیرمین بنتے ہی وقف بورڈ کی آمدنی کروڑوں میں کردی تھی۔ انہوں نے یہی نہیں کیا بلکہ حکومت سے بھی کروڑوں کا بجٹ منظور کرالیا۔
انہوں نے ائمہ اور موذنین کی تنخواہوں اور بیوائوں کے وظائف میں دوگنا اور تین گنا اضافہ کردیا۔ انہوں نے وقف بورڈ کے دفتر کی صورت ہی بدل دی۔ کام کاج کے ماحول میں انقلاب برپا کردیا۔پہلے سے مستقل عملہ کے علاوہ کئی درجن نیا عملہ بھی رکھ لیا۔ پرائیویٹ مسجدوں کے ائمہ تک کو 14 تا 16 ہزار روپیہ کی تنخواہوں کا حق دار بنادیا۔ کرایہ داریاں بڑھادیں۔ جو لوگ کم کرایہ بھی نہیں دے رہے تھے انہیں مارکیٹ ریٹ کا نیا کرایہ دینے کا پابند کردیا۔یہ سب کام اسی وقت ہوسکتے ہیں جب آپ خود بدعنوان نہ ہوں۔ ایسے میں ان شرپسندوں پر تو ضرب پڑنی ہی تھی جو وقف بورڈ کو لوٹتے رہے تھے اور مسلسل لوٹتے رہنا چاہتے تھے۔
مشرقی دہلی کا فساد ہوا تو امانت الله فساد زدگان کے مسیحا بن کر سامنے آگئے ۔انہوں نے وقف بورڈ کے تحت عوامی چندہ کیا تو 92 لاکھ روپیہ جمع ہوگیا۔شرپسندوں کے پیٹ میں درد اٹھا۔ اس رقم کو امانت الله نے متاثرین پر صرف کیا۔ جمناپار میں متاثرین کےلیے جو کیمپ لگایا وہ کیمپ کیا تھا متاثرین کےلیے راحت کا سب سے بڑا مرکز تھا۔
جب میں شرپسند کہتا ہوں تو آپ کو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ اپنوں میں سے ہیں ۔ غیروں میں سے نہیں ۔ یہ اپنے ہی ہیں جو آج تک وقف املاک کو دیمک کی طرح چاٹتے رہے۔ لیکن امانت الله کو پگھلتا ہوا نہ دیکھ کر یہ شرپسند تڑپ اٹھے اور ان کے خلاف سرگرم ہوگئے ۔
مجھے اس موقع پر دلّی والوں سے بھی سخت شکایت ہے۔ اربوں کھربوں کی یہ جائیدادیں ان کے آباواجداد نے ہی وقف کی تھیں ۔ لیکن دلّی والے ان جائیدادوں کی لوٹ کھسوٹ خاموشی سے دیکھتے رہے۔ اب جب ایک کام کا چیرمین آیا اور اسے پریشان کیا گیا تب بھی انہیں خیال نہیں آیا کہ وہ سامنے آکر اوقاف کا تحفظ کریں۔ آج امانت الله نے دلی والوں کا بھی شکریہ ادا کیا ہے۔ لیکن میری نظر میں وہ ہرگز شکریہ کے مستحق نہیں ہیں ۔
دہلی حکومت کے ان افسروں نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی جن پر لیفٹیننٹ گورنر کا تسلط ہے۔ وہ بھی تاخیر پر تاخیر کرتے گئے ۔ اس دوران شرپسندوں نے ایک نہیں یکے بعد دیگرے تین تین رٹ امانت الله کے الیکشن کے خلاف دائر کیں ۔ان شرپسندوں کو یہ خیال نہیں آیا کہ اماموں اور ملازمین نے کس حال میں لاک ڈاؤن گزارا ہے۔ پہلے بھی انہیں کئی مہینوں تک تنخواہیں نہیں ملیں۔ پھر جب مجھ جیسے کچھ افراد کی کوششوں سے تنخواہیں جاری ہوئیں تو اگلے چند ماه کےلیےپھر رک گئیں ۔ پھر بھاگ دوڑ کی گئی اور کئی مہینوں بعد ملیں۔ لیکن جو غیر مستقل اسٹاف تھا اس کی تنخواہیں پچھلے نو مہینوں سے نہیں ملیں۔
میں شرپسندوں سے پوچھتا ہوں کہ نو مہینوں کی مجرمانہ تاخیر اور تین تین پٹیشنز سے نپٹنے کے بعد امانت الله تو آج چیرمین منتخب ہوگئے ‘ تم بتاؤ تمہیں اس عرصہ میں وقف بورڈ کا’ اوقاف کا’ ملازمین اور ائمہ کا نقصان کرکے کیا ملا؟ میں نے اس وقت بھی کہا تھا کہ تمہاری دشمنی امانت الله سے ہے تو اوقاف کا نقصان کیوں کر رہے ہو۔ لیکن تم تو اوقاف کے بھی دشمن ہو۔ تمہیں اس سے کیا لینا دینا کہ اماموں ‘ موذنوں اور بیواؤں کے بھوکے خاندان ایڑیاں رگڑ رہے ہیں اور وہ کسی کے آگے دست سوال بھی دراز نہیں کرسکتے۔ یہ سب مظلوم ہیں۔ کان کھول کر سن لو۔تم نے مظلوموں کو ستایا ہے۔ اور مظلوم جب آہ بھرتا ہے تو عرش بھی لرز اٹھتا ہے۔