پیپر لیک سے ابھرے سوال، جوابدہی کس کی

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

پیپر لیک معاملہ میں ہر روز نئے انکشافات ہو رہے ہیں ۔ اس کے تار یوپی، بہار، ہریانہ، مدھیہ پردیش، مہاراشٹر اور دہلی سے جڑنے کی خبر ہے ۔ عجیب بات ہے کہ نیٹ پیپر لیک میں جن ریاستوں کے نام سامنے آئے دہلی کو چھوڑ کر ان سب میں ڈبل انجن کی سرکار ہے ۔ جس ایجنسی کے پاس امتحانات کرانے کی ذمہ داری ہے وہ بھی مرکزی حکومت کے ماتحت ہے ۔ مدھیہ پردیش کے ویاپم گھوٹالے کے متاثرین کو آج تک انصاف نہیں ملا ۔ مشکوک حالات میں کچھ لوگوں کی موت کے بعد تو اس پر بات ہونا بھی بند ہو گیا ہے ۔ گزشتہ سات سالوں میں پیپر لیک کے ملک میں 70 معاملہ ہوئے ہیں ۔ اس سے 1.5 کروڑ بچے سیدھے طور پر متاثر ہوئے ۔ اس وقت ملک کی آبادی مں 65 فی صد نوجوان ہیں ۔ جو اسکولی تعلیم مکمل ہونے کے ساتھ ہی مستقبل کا خواب دیکھتے ہیں ۔ اسے پورا کرنے کے لئے محنت کرتے ہیں ۔ اعلیٰ تعلیم، میڈیکل یا نوکری کے لئے مقابلہ کے امتحانات کی تیاری کرتے ہیں ۔ ایسے میں اگر انہیں پیپر لیک جیسے واقعات سے دوچار ہونا پڑے تو یہ انتہائی تشویش کی بات ہے ۔
پیپر لیک کے واقع سے بچوں کا پورے تعلیمی نظام پر سے یقین اٹھ جاتا ہے ۔ تحقیق کے مطابق امتحان کے طریقہ کار پر سے بھروسہ ڈگمگاتا یے ۔ جس کا بچوں کی تعلیمی کارکردگی پر برا اثر پڑتا ہے ۔ نفسیاتی طور پر بھی وہ متاثر ہوتے ہیں ۔ منفی سوچ اور مایوسی پیدا ہوتی ہے ۔ ویسے بھی موجودہ دور نے پورے تعلیمی نظام کو فٹ بال کا میدان بنا دیا ہے ۔ جس میں بچوں کا ہدف گول کرنا ہوتا ہے گول سہنے کے لئے وہ ذہنی طور پر تیار نہیں ہوتے ۔ نتیجہ کے طور پر ناکامی کو کامیابی میں بدلنے کے بجائے جان دینا (خود کشی کرنا) گوارہ کرتے ہیں ۔ ایک آر ٹی آئی سے معلوم ہوا ہے کہ گزشتہ 5 سالوں میں 64 ایم بی بی ایس اور 55 پوسٹ گریجویٹ کے طالب علموں نے خود کشی کی ۔ 2016 سے 2021 کے دوران بھارت میں طالب علموں کی خودکشی میں 27 فیصد کا اضافہ ہوا ہے ۔ 15 سے 29 سال کے نوجوانوں میں موت کی چوتھی بڑی وجہ خود کشی ہی ہے ۔
حال ہی میں نیشنل ایلیجبلٹی انٹرینس ٹیسٹ (این ای ای ٹی ۔ نیٹ) اور یوجی سی جے آر ایف، نیٹ کے پیپر لیک نے نیشنل ٹیسٹنگ ایجنسی (این ٹی اے) کی کار کردگی پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے ۔ پہلے بچوں کو مختلف یونیورسٹی یا کالجوں میں داخلہ کے لئے الگ الگ فارم اور فیس بھرنی پڑتی تھی ۔ اس پریشانی سے طالب علموں کو بچانے کے لئے 2017 میں مرکزی حکومت کے ذریعہ این ٹی اے کا قیام عمل میں آیا ۔ اعلیٰ تعلیم اور مختلف سرکاری انسٹی ٹیوٹس میں داخلہ کے لئے امتحان لینا اس کی ذمہ داری ہے ۔ لیکن ملک میں جس طرح ایک کے بعد ایک مقابلہ کے امتحان میں دھاندلی اور پیپر لیک کے واقعات سے اس کی افادیت ہی مشکوک ہوتی جا رہی ہے ۔ نیٹ کا فارم بھرنے کی تاریخ 9 فروری سے 9 مارچ تھی ۔ بہت سے بچوں نے آخری دنوں میں فارم بھرنے کی کوشش کی مگر این ٹی اے کی ویب سائٹ کریش ہونے وجہ سے فارم بھرنے میں دقت آئی ۔ طلبہ اور ان کے والدین کے مطالبہ پر فارم بھرنے کی تاریخ ایک ہفتہ کے لئے بڑھا دی گئی ۔ پر اسرار ڈھنگ سے نیٹ کی ویب سائٹ 9 سے 10 اپریل کے لئے پھر کھولی گئی ۔ ان دو نوں میں 24 ہزار فارم جمع ہو گئے ۔ یہ جانچ کا موضوع ہے کہ تاریخ ختم ہونے کے بعد دوبارہ فارم کیوں جمع کرائے گئے اور ان نئے فارم بھرنے والوں میں کتنے کامیاب ہوئے؟ پھر بنا کسی وجہ کے طلبہ کو گریس مارکس کیوں دیئے گئے؟ این ٹی اے نے صفائی دیتے ہوئے کہا کہ ہریانہ کے سینٹر پر بچوں کا وقت برباد ہوا تھا ۔ جس کی وجہ سے انہیں گریس مارکس دیئے گئے ۔ وقت تو دوسری ریاستوں میں بھی برباد ہوا تھا لیکن گریس مارکس صرف ہریانہ کے بچوں کو کیوں دیئے گئے؟ فارم کے ساتھ دیئے گئے پراسپیکٹس میں گریس مارکس کا ذکر کیوں نہیں کیا گیا؟ جب گڑ بڑی پکڑی گئی تو وزیر موصوف نے گریس مارکس ہٹا کر دوبارہ امتحان کرانے کا حکم صادر کر دیا ۔ مانو ایک جگہ کی گڑ بڑ سے دوسرے کا کوئی رشتہ ہی نہ ہو ۔
اس سال نیٹ کا امتحان 24 لاکھ طلبہ نے دیا ہے ۔ دراصل ملک میں میڈیکل کی پڑھائی کا خرچ نجی کالجوں میں کروڑوں روپے میں پہنچ گیا ہے ۔ ایسے میں سرکاری میڈیکل کالجوں میں پڑھائی کے لئے جدوجہد تیز ہوئی ہے ۔ اس کی وجہ سے ملک میں کوچنگ سینٹر چاندی کاٹ رہے ہیں ۔ نٹ کا امتحان 5 مئی کو 4750 مراکز پر کرایا گیا ۔ پیپر شروع ہونے سے پہلے بہار اور یوپی میں پیپر آؤٹ ہونے کی افواہیں گشت کرنے لگی تھیں ۔ پولس نے دونوں ریاستوں میں کچھ لوگوں کو گرفتار بھی کیا تھا ۔ کچھ لوگوں نے این ٹی اے کو میل کے ذریعہ پیپر آؤٹ ہونے کی اطلاع بھی دی تھی ۔ بہار میں نیٹ کے پیپر کی جلی ہوئی کاپی اور تیس چالیس لاکھ کے چیک بھی پکرڑے گئے ۔ پیپر کی مشق کرانے کی خبر بھی آئی تھی ۔ جس پر این ٹی اے نے کوئی توجہ نہیں دی ۔ نیٹ کے ریزلٹ کا اعلان 14 جون کو ہونے والا تھا لیکن 4 جون کو اس وقت نتیجہ آ گیا جب ملک میں پارلیمانی انتخاب کے ووٹوں کی گنتی چل رہی تھی ۔ شاید سفید پوش لوگوں نے یہ سوچا ہوگا کہ انتخابی نتیجوں کے ہو ہلا میں ان کا جرم چھپ جائے گا ۔ مگر سوشل میڈیا اور یوٹیوب چینلز نے گھوٹالے کا پردہ فاش کر دیا ۔ نیٹ میں 67 بچوں نے 720 میں سے 720 نمبر حاصل کر ٹاپ کیا ۔ وہیں کچھ کو 718، 719 نمبر حاصل ہوئے ۔ اس سے گڑ بڑی کا شک ہوا ۔ پھر ٹاپروں کی میرٹ لسٹ میں آٹھ طالب علموں کے سیریل نمبر ایک ہی سیریز 62 سے 69 میں ہونے پر بھی شک ظاہر کیا گیا ۔ ان میں سے چھ نے رینک ون حاصل کی ہے ۔ یہ سب بہادر گڑھ کے ایک ہی ایگزام سینٹر کے ہیں ۔ ان آٹھ میں سے سات کے سر نیم لسٹ میں نہیں دیئے گئے جس سے شک اور بڑھ گیا ۔
حکومت نے پہلے تو کسی امتحان میں کسی طرح کی گڑبڑی سے انکار کیا لیکن طلبہ ان کے والدین کے احتجاج و عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے اور انڈیا اتحاد کے ذریعہ اسے ایشو بنانے کے بعد اس معاملہ کو سی بی آئی کے سپرد کیا گیا ۔ وزارت تعلیم نے یو جی سی جے آر ایف/ نیٹ کے امتحان کو رد کر دیا ۔ 18 جون کو 9 لاکھ 8 ہزار 580 طالب علموں نے یو جی سی نیٹ کا امتحان دیا تھا ۔ اس معاملہ میں حکومت نے کلین چٹ دینے کی ہڑ بڑی نہیں دکھائی اور جانچ شروع کردی ۔ قانون اپنی رفتار سے کام کرے گا لیکن ان معصوم بچوں کا کیا جنہوں نے وسائل اور وقت لگا کر کن حالات میں امتحان دیا ۔ ان کے پاس مستقبل بنانے کے لئے محدود وقت ہوتا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا پیپر لیک کرپشن میں صرف بڑے کوچنگ سینٹروں کا رول ہے؟ اتنی بڑی گڑی این ٹی اے کے اعلیٰ افسران اور حکومت کی مرضی کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔ سوال یہ ہے کہ اگر اس دھاندلی میں سبھی کا حصہ ہے تو پھر اسے روکے گا کون؟ ایسے میں بلا امتیاز غیر جانبدار امتحانات کرانے کی جوابدہی کس کی ہوگی ۔