خواتین پر تشدد کے معاملہ میں فرانس سب سے خطرناک ملک
فرانس میں نئے سال 2022ء کے آغاز پر ملک کے مختلف حصوں میں تین ایسی خواتین مردہ پائی گئیں، جنہیں ان کے پارٹنرز نے قتل کر دیا تھا۔ قتل کے ان تین مختلف واقعات پر حقوق نسواں کی علمبردار خواتین اور ان کی تنظیموں نے اس قدر احتجاج کیا کہ حکام کو وعدے کرنا پڑے کہ ملکی خواتین کے خلاف گھریلو تشدد کا خاتمہ کر دیا جائے گا۔ اس سے قبل احتجاجی خواتین نے حکومت پر یہ الزام بھی لگایا تھا کہ وہ عورتوں کو تحفظ دینے میں ناکام ہو گئی ہے۔
گزشتہ برس سو سے زائد خواتین کا قتل
فرانسیسی وزیر اعظم ژاں کاسٹیکس نے منگل چار جنوری کے روز پیرس میں ملکی پارلیمان کو آگاہ کیا کہ سال 2021ء میں 100 سے زائد فرانسیسی خواتین کو تشدد کے مختلف واقعات میں قتل کر دیا گیا اور پھر نئے سال کے آغاز پر اسی طرح کے جرائم نے مزید تین خواتین کی جان لے لی۔
ژاں کاسٹیکس نے مزید کہا کہ حکومت اور ملکی عوام اس تشدد کے خاتمے کے لیے پرعزم ہے۔ ایسا اس لیے بھی لازمی ہو چکا ہے کہ یورپ میں خواتین کے قتل کے سب سے زیادہ واقعات فرانس ہی میں پیش آتے ہیں۔ گزشتہ برس وہاں 113 خواتین ایسے حالات میں قتل کر دی گئیں کہ زیادہ تر واقعات میں قاتل مقتولہ کا سابقہ شوہر یا اس کا شریک حیات تھا۔
تحفظ حقوق نسواں کی ملک گیر فرانسیسی تنظیم ‘نُو تُوٹ‘ (Nous Toutes یا ‘ہم سب‘) کا ان تینوں خواتین کے قتل کے بارے میں کہنا تھا، ”جب ان کے اہل خانہ اور دوست سال نو کی خوشیاں منا رہے تھے، ان تین عورتوں کو محض اس لیے قتل کر دیا گیا کہ وہ عورتیں تھی۔‘‘
تینوں مقتول خواتین کون تھیں؟
جنوبی فرانس کے شہر نیس میں پولیس کو ایک 45 سالہ خاتون کی لاش ایک گاڑی کی ڈگی سے ملی۔ لاش ملنے سے قبل خاتون کے شوہر نے پولیس کے سامنے پیش ہو کر اعتراف کر لیا تھا کہ اس نے اپنی بیوی کا گلہ گھونٹ کر اسے قتل کر دیا ہے۔
اسی دن ملک کے ایک مشرقی علاقے سے بھی پولیس کو ایک 56 سالہ خاتون کی لاش ملی۔ اسے سینے میں چھرا گھونپ کر قتل کیا گیا تھا۔ اس خاتون کے 50 سالہ پارٹنر نے اسے معمولی تکرار کے بعد قتل کر دیا اور پھر پولیس کے سامنے اعتراف بھی کر لیا تھا۔
نئے سال کے شروع میں اسی طرح کے قتل کا تیسرا واقعہ اتوار دو جنوری کو پیش آیا تھا۔ مغربی فرانس میں ایک 27 سالہ خاتون کو خنجر کے وار کر کے قتل کر دیا گیا۔ مقتولہ اور قاتل دونوں فوجی بتائے گئے ہیں۔ مبینہ قاتل کی عمر 21 سال ہے اور اسے پولیس نے شک کی بنیاد پر حراست میں لیا تو اس نے اعتراف جرم کر لیا۔
حقوقِ نسواں کی تنظیموں کی طرف سے مذمت
تحفظ حقوقِ نسواں کی تنظیم Nous Toutes نے ان جان لیوا جرائم کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ایسے جرائم پر ‘حکومت کی خاموشی‘ ان کی شرح میں اضافے کی وجہ بن رہی ہے۔ اس سلسلے میں بعد ازاں ایک آن لائن اجلاس کا اہتمام بھی کیا گیا، جس میں قتل کے ان واقعات کی بھرپور مذمت کی گئی۔ اسی دوران تمام شہریوں کے لیے مساوی حقوق کی جونیئر ملکی وزیر الزبتھ مورینو نے اپنی ایک ٹویٹ میں ان ہلاکتوں کی مذمت کرتے ہوئے لکھا، ”ہم سب پوری طرح حرکت میں آ چکے ہیں۔‘‘
حکومت کے نئے عملی اقدامات
فرانسیسی وزیر اعظم کاسٹیکس کے بقول ان کی حکومت اس مسئلے پر قابو پانے کی پوری کوششیں کر رہی ہے۔ حکومت نے ایک نیا لیکن ایمرجنسی کال سینٹر بھی قائم کر دیا ہے، جو چوبیس گھنٹے کام کرے گا۔ اس کے علاوہ نوے ہزار کے قریب پولیس افسران کو اس لیے تعینات کیا گیا ہے کہ وہ خواتین پر تشدد کی شکایات ملنے کے بعد فوری کارروائی کر سکیں۔ عورتوں پر تشدد کے خلاف سرگرم کئی تنظیموں کی اس اعلان کے بعد اب شکایت یہ ہے کہ ایسے بہت سے پولیس اہلکاروں کو تو کوئی خاطر خواہ تربیت دی ہی نہیں گئی۔
ژاں کاسٹیکس کے فیصلے کے مطابق ہر سال آٹھ مارچ کو منائے جانے والے خواتین کے عالمی دن کے موقع پر ہی اب فرانسیسی اسکولوں میں ہر سال صنفی برابری کا ہفتہ بھی منایا جایا کرے گا تاکہ بچوں میں صنفی مساوات کے شعور میں اضافہ کیا جا سکے۔ فرانسیسی حکومت ملک میں خواتین پر تشدد کے خاتمے کی کوششوں پر سالانہ ایک بلین یورو خرچ کرتی ہے۔