گیان واپی:مایوس نہ ہو، ارادے نہ بدل، قدرت کے بتائے رستے پر چل!

کلیم الحفیظ، نئی دہلی

گیان واپی مسجد کے معاملہ میں جس طرح کی سیاست شروع ہوئی ہے اس نے ایک بار پھر بابری مسجد کے زخم کو تازہ کردیا ہے۔ شروع میں ایسا لگا تھا کہ یہ معاملہ وقت کیساتھ حل ہوجائیگا، لیکن سول کورٹ سے لے کر سپریم کورٹ تک جس طرح اس معاملہ کو طول دیا گیا اس سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ بابری مسجد کے راستے پر ہی یہ معاملہ بھی چل پڑا ہے۔ مستقبل میں اس معاملہ میں کیا ہوگا اس کا علم تو صرف خالق کائنات کو ہی ہے، لیکن حالات کا اشارہ سمجھنے کی بھی ضرورت ہے۔ جس طرح کی بحث حجاب کے معاملہ میں عدالت عظمیٰ میں چل رہی ہے، اس سے اس بات کی امید بے حد کم ہے کہ عدالت کا فیصلہ حجاب کے حق میں آئیگا۔ تین طلاق کے معاملہ میں ہم پہلے ہی عدالت کا فیصلہ دیکھ چکے ہیں۔ اس سے قبل بابری مسجد کے معاملہ میں جس طرح کا فیصلہ عدالت نے دیا اس سے بھی اگر ہماری آنکھ اب تک نہیں کھلی ہے تو گیان واپی معاملہ میں ضرور کھل جانی چاہئے، کیونکہ اس معاملہ میں اس سے مختلف فیصلے کی توقع تھی بھی نہیں ۔
ہمیں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ بھارت ایک دھرم پردھان(مختلف مذاہب کا گہوارہ) دیش ہے۔آج سے ۵۶ہزار سال قبل کے بھارت کو ہم دیکھیں تو تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ یہاں ایران کے کسان آئے۔ اس کے بعد آفریقہ کے لوگ آئے۔ پھر آرین اور سنٹرل ایشیا کے لوگ آئے اور ا س طرح کارواں بنتا چلا گیا۔ تاریخ کے طلبا اچھی طرح جانتے ہیں کہ اسی لئے آدیواسیوں کا یہ دعویٰ ہے کہ بھارت کے جل، جنگل اور زمین پر پہلا حق ان کا ہے۔ تاریخ ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ برہمن بھی اس ملک کے اصلی باشندے نہیں ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا کہ اگر کل کوکوئی ایرانی کسان آئے اور بھارت پر اپنا دعویٰ پیش کردے،تو کیا گاندھی کے بھارت کو ہم اسے سونپ دیں گے؟ ہر گز نہیں۔ اس طرح بھارت میں سناتن تہذیب کے علاوہ، جین، بودھ، کرسچن اور اسلام سمیت نہ جانے کتنے مذہب ہیں۔ کل کوآرین آکر اس پر اپنا قبضہ پیش کریںتو کیا ہم ان کو بھارت سونپ دیں گے؟ ہر گز نہیں۔ اس طرح ۷۵۷۱ سے لے کر ۷۵۸۱ تک انگریزوں نے قسطوں میں اس ملک پر حکومت کی اور ۷۵۸۱سے ۷۴۹۱ تک گریٹ برٹین کی حکومت رہی۔ کوہ نو ر بھی چوری ہوا اور سونے کی چڑیا کو کنگال بنا دیا گیا۔ ماضی میں آپ نے دیکھاہوگا کہ بی جے پی کی ہی طرف سے کہاگیا کہ آزادی سو سال کی لیز پر ملی ہے،تو کیا ہم ۵۲ سال بعد پھر ملک انگریزوں کو سونپ دیں گے؟ یہ اور اس جیسے متعدد سوال ہیں جس کے جواب کی جگہ آئین ہند کی بالادستی اشد ضروری ہے۔
ہمیں یہ بات اچھی طرح سمجھنی چاہئے کہ بھارت کی اسی کثرت میں وحدت کو برقرار رکھنے کیلئے جب ملک ۷۴۹۱میں آزاد ہوا تو اس کو ایک ایسا آئین ملا جس میں ضمانت دی گئی کہ یہ ایک سوشلسٹ ڈیموکریٹک ریپبلک ہوگا، پھر بعد میں اس میں سیکولر لفظ کو جوڑ دیا گیا، تاکہ گنجائشیں ختم ہوجائیں اور شبہات کا سد باب ہو جائے، کیونکہ اس ملک کے معماروں کو یہ پتہ تھاکہ مستقبل میں گیان واپی اور بابری مسجد جیسے معاملے پیدا کئے جائیں گے،چونکہ بدقسمتی ہمارے یہ رہی کہ ہم نے اپنی قیادت پیدا کرنے کے جگہ دوسروں کے پے رول پر بھی کام نہیں کیا اور کنٹریکٹ کی نوکری میں عافیت سمجھی، اس لئے جب ان کا مقصد حاصل ہوگیا تو انہوں نے دودھ سے مکھی کی طرح نکال کر پھینک دیا۔ اس لئے ہمیں ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ شاید اسی لئے کہتے ہیں کہ جب جاگے تبھی سویرا۔
یہ بات بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہماری عدالتوں کا حالیہ رویہ بہر حال اطمینان بخش نہیں ہے۔ عدالتوں کے احترام کے ساتھ ہم کو یہ سوال پوچھنے کا حق ملنا چاہئے کہ کیا پورے ملک میں ایک بھی مسلمان اس لائق نہیں ہے کہ وہ جج بن سکے۔ جسٹس قریشی کے ساتھ کیا کچھ نہیں ہوا،کیا ہم اس کو بھول گئے۔ سپر یم کورٹ میں ایک بھی مسلمان جج نہیں۔ حکمراں جماعت نے کسی بھی مسلمان کو لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں جگہ نہیں دی ہے۔ مرکزی کابینہ میں کیا ہوتا ہے، اس کا علم کسی بھی مسلمان کو نہیں ہے۔ اس کے بعد بھی اگر ہم غلفت میں ہیں تو یہ قصور ہمارا ہے، سیاستدانوں کا نہیں ہے۔ وارانسی کے ضلع جج صاحب نے جو فیصلہ سنایا ہے، اس سے مختلف فیصلے کی امید تھی بھی نہیں۔ جب سول جج نے ویڈیو گرافی اور سروے کا فیصلہ دیا تھا اور جس طرح سے وکیل صاحب نے اس میں گل کھلاتے ہوئے بیماری کا بہانہ بنا کر پورا کھیل کیا تھا،تبھی بات سمجھ میں آگئی تھی کہ جس طرح دن کے اجالے میں بابری مسجد میں مورتیوں کا ظہور کرا دیاگیا اسی طرح دن کے اجالے میں یہاں شیولنگ کا ظہور ہوگیا ہے اور پھر گودی اور روگی میڈیا نے رہی سہی کسر پوری کردی تھی۔
ضلع جج نے اپنے ۶۲ صفحات پر مشتمل فیصلے میں جس طرح سے مسجد انتظامیہ کمیٹی کی سبھی دلیلوں کو خارج کردیا اور یہ فیصلہ سنا دیا کہ یہ کیس سننے کیلائق ہے،اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس معاملہ کا آخری فیصلہ کیا ہونے والا ہے۔ خیر! اللہ مقلب القلوب ہے، توقع ہمیں اسی سے ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلہ میں کہاکہ ۳۸۹۱ میں یوپی کی اس وقت کی کانگریس سرکار نے کاشی وشوناتھ ٹیمپل ایکٹ پاس کیاتھا، جس کے سیکشن (۴)سب کلاز (۱۱)کے حساب سے یہ پراپرٹی مند ر پریسر ہے اور ۱۹۹۱ کا ایکٹ اس کو کور نہیں کرتا ہے۔ عدالت میں مسجد کمیٹی نے کہاکہ یہ وقف پراپٹی ہے اور خسرہ میں موجودہے، عدالت اس کو اس طرح نہیں سن سکتی ہے۔ اس پر جج صاحب نے کہاکہ متعدد عدالتوں کے فیصلے پہلے سے موجود ہیں کہ محض ریوینو ریکارڈ میں انٹری سے ملکیت ثابت نہیں ہوتی۔ مسجد انتظامیہ کی طرف سے جو بھی دلیل دی گئی وہ عدالت میں نہیں ٹکٹ سکی۔ عدالت کی طرف سے کہاگیا کہ ۱۹۹۱ کا ایکٹ نیچر کو بدلنے سے منع کرتا ہے، یہ جگہ مسجد ہے یا مندر،اس کا فیصلہ کیسے ہوگا؟ اس کے فیصلے کے بعد اس پر ۱۹۹۱ کا ایکٹ نافذ ہوگا، ظاہر سی بات ہے کہ عدالت نے ایک پنڈورا باکس کھول دیا ہے، اس کے بعد اس طرح کے سیکڑوں معاملات عدالت میں آئیں گے۔ ویسے بھی ۱۹۹۱ کے ایکٹ کو اسٹرائک ڈائون کیا جاسکتا ہے۔ اس کو ریپیل کیا جا سکتا ہے۔ اس کو بدلا جاسکتا ہے۔ ماہرین قانون اس ایکٹ میں خامیاں بھی بتارہے ہیں۔ یہ ایکٹ بنایا اس لئے گیاتھاتاکہ تمام طرح کے تنازعات کے دروزے بند کردئے جائیں، لیکن ضلع جج کے فیصلے نے تنازعات کی راہیں کھول دی ہیں۔ ابھی حال ہی میں بدایوں کی تاریخی مسجد کو مندر بتانے والی عرضی سماعت کیلئے قبول کر کے کئی طرح کے تنازعات کا دروازہ کھولا گیا ہے۔
اب آپ خود سوچ لیجئے۔ بابری مسجد معاملہ میں ۱۹۹۱ کے ایکٹ کو لے کر سپریم کورٹ نے جو باتیں کہی تھیں،اس پر بھی سپریم کورٹ میں تین ججوں کی بنچ سماعت کر رہی ہے۔اگر اس بنچ نے اس آبزرویشن کے بر خلاف فیصلہ دیا تو کیا ہوگا؟ اس لئے ہماری سرکاروں کیلئے ضروری ہے کہ وہ ملک میں قیام امن کیلئے پہل کریں۔ خود بی جے پی کے رہنما پارلیمنٹ میں کہہ چکے ہیں کہ سرکاروں کی مرضی کے بغیر پتہ بھی نہیں ہلتا ہے۔ ہم نے ماضی میں متھرا کے معاملے میں دیکھا کہ عیدگاہ اور سری کرشن جنم بھومی کا تنازعہ سرکاروں کی مداخلت کیساتھ ہی بہتر انجام تک پہونچا۔ جب کاشی کوریڈور میں سرکار نے دلچسپی دکھائی تو مسجد انتظامیہ سے ایک پلاٹ لیا بھی اور اس کے بدلے میں ایک پلاٹ دیا بھی۔ مطلب واضح ہے کہ سرکاروں کی مرضی جب جب شامل حال رہی تنازعات حل ہوگئے۔ عدالتوں سے کچھ لوگوں کی ہار جیت ہوسکتی ہے، لیکن سرکار کی غیر جانبدارانہ کوشش ملک میں قیام امن اور ملک کی وحدت و ترقی کی ضامن ہوگی۔ اب اکثریتی سماج کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ بابری مسجد کے بعد اس طرح کے تنازعات کو فریز کرنے کیلئے سامنے آئے،تاکہ ملک ترقی کرسکے اور ہمیں بھی آنکھ،کان اور نا ک تینوں کھلے رکھنے کی ضرورت ہے۔ جذبات کی جگہ جوش اور ہوش دونوں کی ضرورت ہیورنہ اشارے بہر حال بہتر نہیں ہیں، کیونکہ جس راستے کی طرف ملک کو دھکیلا جا رہا ہے اس میں کسی کیلئے بھی بہتری نہیں ہے۔