عبادت گاہ ایکٹ اور بھگوا برگیڈ
ڈاکٹر مظفر حسین غزالی
متعلقہ مضامین
سنبھل کے بعد اجمیر کی درگاہ، اجمیر میں ہی ڈھائی دن کا جھونپڑا مسجد، بدایوں کی جامع مسجد کے مندر ہونے کے دعوے اور سروے سے پلیسس آف ورشپ ایکٹ (عبادت گاہ قانون) پر ملک میں بحث شروع ہو گئی ہے ۔ 1990 میں ایل کے اڈوانی کی رتھ یاترا سے پیدا ہوئے فرقہ وارانہ طوفان اور بد امنی سے آئندہ ملک کو بچانے کے لئے پارلیمنٹ سے 1991 میں عبادت گاہ قانون پاس کیا گیا ۔ اس کی دفعہ چار کی شق نمبر ایک میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ 15 اگست 1947 کو جو عبادت گاہ جس شکل میں تھی (سوائے بابری مسجد کے) اسی شکل میں رہے گی ۔ دفعہ تین عبادت گاہ کے کیرکٹر کو بدلنے پر پابندی لگاتی ہے ۔ دفعہ چار کی شق دو میں کہا گیا کہ کسی عبادت گاہ کا اگر کسی عدالت میں کوئی تنازعہ ہے تو وہ کالعدم ہو گیا اور آئندہ بھی کوئی مقدمہ قائم نہیں کیا جا سکتا ہے ۔ 2019 میں ایودھیا تنازعہ پر سپریم کورٹ کی پانچ رکنی بنچ جس کے ڈی وائی چندر چوڑ بھی ایک رکن تھے نے اپنے فیصلے میں عبادت گاہوں کے قانون کی اہمیت کو دوہراتے ہوئے کہا تھا کہ موجودہ مذہبی مقامات کے خلاف کوئی دعویٰ قانون کے ذریعہ قبول نہیں کیا جاسکتا ۔ یہ فیصلہ اراضی کے مالکانہ حق کا ہے اسے کسی بھی معاملہ میں نذیر نہیں بنایا جا سکتا ۔ تاہم مئی 2022 میں اس وقت کے چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی والی بنچ نے سروے کو جاری رکھنے کی اجازت دے دی ۔ انہوں نے کہا کہ 1991 کے قانون کے تحت کسی مذہبی مقام کی نوعیت کا پتہ لگانا ممنوع نہیں ہے ۔ سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ ضلعی عدالت میں دائر درخواست جس میں کہا گیا ہے کہ مسجد ایک منہدم مندر کے کھنڈرات پر بنائی گئی تھی کی سماعت کرتے ہوئے سنایا تھا ۔ اس میں عدالت نے یہ بھی کہا کہ درخواست گزار صرف 15 اگست 1947 کو اس مقام کی حیثیت کا پتہ لگانے کی مانگ کر رہا ہے ۔ نہ کہ ایکٹ کے مطابق اس کی نوعیت کو بدلنے یا تبدیل کرنے کی ۔
سپریم کورٹ کی سی جے آئی چندر چوڑ کی سربراہی والی بنچ جس میں جسٹس جے بی پارڈی والا اور جسٹس منوج مشرا بھی شامل تھے نے گیانواپی معاملہ کی سماعت کے دوران الہ آباد ہائی کورٹ کے حکم کو برقرار رکھا، جس میں آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا (اے ایس آئی) کو گیانواپی کمپلیکس کے سروے کی اجازت دی گئی تھی ۔ 4 اگست 2023 کو سپریم کورٹ نے واضح کیا کہ سروے non invasive "غیر جارحانہ” تکنیک کے تحت کیا جانا چاہئے اور یہ بھی کہا کہ اس کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ آیا یہ مسجد کسی مندر کو گرا کر بنائی گئی تھی یا نہیں ۔ گیانواپی مسجد کی انجمن انتظامیہ کمیٹی نے عدالت میں دلیل دی تھی کہ یہ فیصلہ 1991 کے عبادت گاہوں کے ایکٹ کے خلاف ہے اور اس سے ملک بھر میں اسی طرح کی درخواستوں کا سیلاب آ جائے گا ۔ اس پر سپریم کورٹ کی بنچ نے کہا تھا کہ عبادت گاہوں کے قانون کی دفعہ 3 میں کسی بھی عبادت گاہ کی مذہبی نوعیت کی شناخت پر کوئی پابندی نہیں ہے ۔ تاہم، اسی ایکٹ کی دفعہ چار 15 اگست 1947 سے پہلے موجود عبادت گاہوں کی شکل میں کسی قسم کی تبدیلی کو منع کرتا ہے ۔ اس اہم فیصلے میں عدالت نے کہا تھا کہ مذہبی مقامات کی تاریخی اور ثقافتی اہمیت کو برقرار رکھنے کے لیے یہ انتظام ضروری ہے لیکن مذہبی کردار کا تعین کسی اور قانونی عمل کا حصہ ہو سکتا ہے ۔
جسٹس چندر چوڑ کے اس فیصلہ کی وجہ سے بھگوا برگیڈ کے لئے مختلف مقامات پر قانونی تنازعہ کھڑا کرنے کا راستہ کھل گیا ۔ مساجد اور درگاہوں کی جگہ مندر تلاش کرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا ۔ گیانواپی کے بعد متھرا، سنبھل، بدایوں اور اب اجمیر کی درگاہ اور ڈھائی دن کا جھونپڑا مسجد کے سروے کا ضلع عدالت نے فیصلہ سنایا ہے ۔ ملک کھودنے کا یہ سیلاب کہاں جا کر رکے گا کہنا مشکل ہے ۔ مسجد کمیٹی کو سنے بغیر ضلع عدالت کی سروے کرانے میں حیران کن جلد بازی پر سپریم کورٹ کے ایڈوکیٹ بھانو پرتاپ سنگھ عدالت کو قصور وار مانتے ہیں ۔ مشہور ایڈوکیٹ پرشانت بھوشن کا کہنا ہے کہ یا تو ضلع جج عبادت گاہ قانون سے واقف نہیں ہیں یا پھر وہ فرقہ پرست ہیں ۔ دونوں ہی صورتوں میں انہیں جج بنے رہنے کا حق نہیں ہے ۔ سینئر ایڈوکیٹ دشینت دوے نے تو ضلع عداتوں کے اس رویہ پر گہری تشویش ظاہر کی ہے ۔ سنبھل میں پولس انتظامیہ کی مل بھگت سے ہوئے واقع جس میں پانچ لوگوں کی جان چلی گئی اور بہت سے لوگ زخمی ہوئے ہیں وہ انٹرویو کے دوران رو پڑے ۔
سنبھل میں 24 نومبر کو صبح ساڑھے چھ بجے دوبارہ سروے ٹیم کا بغیر پشگی اطلاع اور عدالت کی اجازت کے بغیر مسجد پہنچنا کئی سال پیدا کرتا ہے ۔ اس بار نہ صرف پولیس سروے ٹیم کے ساتھ تھی بلکہ بڑی تعداد میں ‘جئے شری رام’ کے نعرے لگانے والے لوگ بھی ان کے ساتھ تھے ۔ اس کی وجہ سے مسلمان بھی اکٹھا ہو گئے ۔ پولس نے سمجھا بجھا کر عوام کو شانت کرنے کے بجائے طاقت کا استعمال کیا ۔ جس کے سبب حالات قابو سے باہر ہو گئے، پتھراؤ، لاٹھی چارج، آنسو گیس اور فائرنگ ہوئی ۔ وائرل ویڈیو میں پولس لاٹھیاں بھانجتی اور گولی چلاتی دکھائی دے رہی ہے ۔ سنبھل کے معاملہ میں سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں پولیس اور ضلعی انتظامیہ کو سخت ہدایات جاری کی ہیں ۔ عدالت نے کہا کہ ضلع میں مکمل غیر جانبداری کے ساتھ امن و امان بحال کیا جائے ۔ اس کے علاوہ سی جے آئی سنجیو کھنہ نے کہا کہ مسجد کمیٹی سول پروسیجر کوڈ کے آرڈر 9 رول 13 کے تحت 19 نومبر کو سروے کرنے کے سول کورٹ کے یکطرفہ فیصلے کو منسوخ کرنے کے لئے الہ آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کر سکتی ہے ۔ سپریم کورٹ نے یہ ہدایت آرٹیکل 227 کے تحت نچلی عدالتوں کی نگرانی کے اپنے اختیار کے تحت دی ہے ۔ اتر پردیش میں جب سے آدتیہ ناتھ وزیر اعلیٰ بنے ہیں مسلمانوں پر کسی نہ کسی بہانے بڑے پیمانے پر حملے ہو رہے ہیں ۔ چند ہفتے قبل بہرائچ میں فرقہ وارانہ تشدد میں مسلم طبقہ کے خلاف ریاستی جبر اور مسلم نوجوانوں کی گرفتاری کا واقع پیش آیا ۔ ہندوتوا تنظیمیں ریاستی حکومت کی سہ اور قانونی ذرائع سے تنازعہ پیدا کر مساجد، درگاہ اور قبرستان کو نشانہ بنا رہی ہیں ۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ جسٹس چندر چوڑ کے فیصلہ کی وجہ سے ہو رہا ہے ۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ سمیت مسلم تنظیموں اور اپوزیشن نے ان کے اس فیصلے پر شدید رد عمل ظاہر کیا ہے ۔ ملک میں فرقہ وارانہ تنازعات کے لئے انہیں ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے ۔ جسٹس چندر چوڑ نے اسی عبادت گاہوں کے قانون کو نظر انداز کیا جس پر پہلے سب کو عمل کرنے کا حکم دیا تھا ۔ اگر اس تباہ کن روش کو تبدیل کرنا ہے اور بھگوا برگیڈ کو روکنا ہے تو سپریم کورٹ کو از خود نوٹس لے کر فوری طور پر مداخلت کرنی چاہئے ۔ تاکہ عبادت گاہوں کے ایکٹ کا تقدس برقرار رہے ۔ جو 15 اگست 1947 کے بعد کسی عبادت گاہ کے بارے میں کوئی قانونی تنازعہ کھڑا ہونے کی اجازت نہیں دیتا ۔