نفرت کی چنگاریاں: 100 سال سے پرانی تمام اہم مسجدوں کا سروے کرانے کا مطالبہ
نئی دہلی: ملک بھر میں چل رہے مندر-مسجد تنازعہ کے درمیان سپریم کورٹ میں ایک مفاد عامہ عرضی داخل کرتے ہوئے مطالبہ کیا گیا ہے کہ ملک کی 100 سال سے پرانی تمام اہم مسجدوں کا سروے کرایا جائے۔ اس حوالہ سے ہندوستان کے محکمہ آثار قدیمہ یا کسی دوسرے ادارے کو حکم جاری کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
عرضی میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ ہندوستان میں 100 سال سے زیادہ پرانی تمام قدیمی مسجدوں، جہاں وضو کے لئے کوؤں، تالابوں یا دوسرے مذہب کی عبادت گاہوں کے ساتھ چھپے ہوئے راستے ہوں، ان کا سروے کرایا جائے۔ سروے کو خفیہ رکھنے کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے، تاکہ اگر کوئی باقیات برآمد ہوتی ہوں تو مذہبی نفرت پھیلنے اور جذبات کو بھڑکنے سے روکا جا سکے۔
عرضی میں مزید دعویٰ گیا ہے کہ قرون وسطیٰ میں مسلم حملہ آوروں نے بہت سے ہندو، جین، سکھ اور بدھ مندروں کی بے حرمتی کی اور ان کو توڑ کر مساجدیں بھی بنائی گئیں۔ لہذا ان قدیمی عبادت گاہوں سے اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب سے وابستہ متعدد دیوی دیوتاؤں کی باقیات برآمد ہوں گی۔ باہمی تعاون اور ہم آہنگی کے لیے ان مساجد میں موجود آثار کا احترام کیا جائے اور ان کی دیکھ بھال اور واپسی کے لیے اقدامات کیے جائیں۔
خیال رہے کہ دہلی-این سی آر کے ایڈوکیٹ شوبھم اوستھی اور سپترشی مشرا نے ایڈوکیٹ وویک نارائن شرما کے توسط سے یہ مفاد عامہ عرضی دائر کی ہے۔ اس میں دعویٰ کرتے ہوئے کہا گیا ہے ’’وارانسی کے گیان واپی احاطہ میں جس تالاب/کنویں پر مسلمان وضو کرتے ہیں، وہاں سے ایک شیولنگ برآمد ہوا ہے۔ وضو کرنے کا یہ سلسلہ کئی دہائیوں سے جاری ہے اور یہ عمل مقدس شیو لنگ کے تئیں حقارت اور ہندو دیوتاؤں کے تئیں انتقام کو ظاہر کرتا ہے، تاکہ ہندوؤں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچائی جا سکے۔‘‘