کانگریس بدلے گی کیا راجستھان کی روایت

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

ملک کی جن پانچ ریاستوں میں انتخابات ہو رہے ہیں راجستھان ان میں سے ایک ہے ۔ یہاں کانگریس اور بی جے پی کے درمیان اقتدار کی ادلا بدلی ہوتی رہی ہے ۔ اس مرتبہ راجستھان میں دونوں جماعتوں کی دھڑکن بڑھی ہوئی ہیں ۔ ایک کی اقتدار جانے کے ڈر سے اور دوسری کی اقتدار میں واپسی ہوگی یا نہیں اس ڈر سے ۔ دونوں ہی ایک دوسرے پر شدید الزامات لگا رہے ہیں ۔ کانگریس کہہ رہی ہے کہ ایک مرکزی وزیر بڑے گھوٹالے میں شامل ہے ۔ ہم ای ڈی کو کہتے کہتے تھک گئے لیکن کوئی کاروائی نہیں ہو رہی ۔ مگر اس مرتبہ ای ڈی نے کانگریس کے ریاستی صدر کو نشانہ بنایا ہے ۔ کانگریس کا کہنا ہے کہ بی جے پی کی جانب سے مرکزی حکومت ایجنسیوں کے ذریعہ ہار کے ڈر سے ہمارے لیڈران پر تابڑ توڑ چھاپے مارے جا رہے ہیں ۔ یوں تو ایجنسیوں کا استعمال پہلے بھی ہوتا رہا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ جب انتخابی ضابطہ اخلاق شروع ہونے کے بعد حکومتیں پالیسی سے متعلق کوئی فیصلہ نہیں لے سکتیں تو پھر چھاپے کی کاروائی کس زمرے میں آئے گی؟ کیا یہ انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی نہیں ہے؟
اگر کسی پر الزام ہے یا وہ شک و شبہ کے دائرہ میں ہے تو اس پر الیکشن سے پہلے بھی کاروائی کی جا سکتی تھی عین انتخابات کے دوران کیوں؟ پانچ سال تک جانچ ایجنسیاں کیا کر رہی تھیں؟ یہ سوال صرف اس لئے نہیں ہے کہ مرکز میں بی جے پی کی حکومت ہے بلکہ اس لئے ہے کہ کل مرکز میں کسی دوسری جماعت کی حکومت آجائے اور وہ بھی انتخابات کے وقت اپنے مخالف لیڈران پر چھاپے مارے تو کیا یہ کاروائی قابل قبول ہوگی ۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ اس طرح کی کاروائی انتخابات کا اعلان ہونے سے پہلے کی جائے نہ کہ الیکشن کے بیچ میں ۔ ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی کو راجستھان میں اپنی ناکامی کا احساس ہو گیا ہے ۔ تبھی تو مسلسل نظر انداز کی جاتی رہی وسندھرا راجے سندھا کو اہمیت دی جا رہی ہے ۔ شاید اس کی وجہ راجستھان میں پرینکا گاندھی کی بڑھی سرگرمی بھی ہو سکتی ہے ۔
پرینکا گاندھی کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنی گفتگو کے ذریعہ عوام سے جڑ جاتی ہیں ۔ ان کی باتیں خواتین اور نوجوانوں کو متاثر کرتی ہیں ۔ خواتین کو ان میں اندرا گاندھی کی شبیہ دکھائی دیتی ہے ۔ اس کا بھی پرینکا کو فائدہ ملتا ہے ۔ بڑی بات یہ ہے کہ وہ اپنی تقریر سے بی جے پی کو کانگریس پر انگلی اٹھانے کا موقع نہیں دیتی ۔ کارکنوں یا عام لوگوں سے وہ جس طرح ملتی ہیں اس سے لوگوں میں ہمت اور جوش بھر جاتا ہے ۔ وہ کہتی ہیں کہ کانگریس آپ کے بھروسے ہے ۔ آپ کے تاثرات اور الفاظ عام لوگوں تک پہنچتے ہیں یا نہیں یہ بڑی بات ہے ۔ پرینک گاندھی اس معاملہ میں بہت آگے ہیں ۔ پھر ان کی ٹیم بھی زمینی سطح پر کام کرتی ہے ۔ ہماچل پردیش میں اسی ٹیم کی بدولت کانگریس کامیاب ہوئی تھی ۔ راجستھان میں بھی ان کی ٹیم کام کر رہی ہے ۔ وہ پارٹی کو منظم کرنے کے ساتھ اس کی بھی کوشش کرتی ہے کہ جنہیں ٹکٹ نہیں ملا وہ کسی طرح کی گڑ بڑ نہ کریں ۔ اسی لئے پرینکا کی پبلک میٹنگ میں کوئی گڑ بڑ نہیں ہوتی ۔ خواتین ووٹروں کے درمیان پرینکا ایک اچھا چہرہ ہیں ۔ انہوں نے اشوک گہلوت اور سچن پائلٹ کے اختلافات کو دور کر پارٹی کو ایک جٹ کرنے کا کام کیا ہے ۔ کانگریس کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ گہلوت، پائلٹ کے بیچ سب کچھ ٹھیک ہے ۔ بھولو معاف کرو اور آگے بڑھو کے فارمولے پر عمل کرنے کو کہا گیا ہے ۔ لیکن کہیں نہ کہیں کسک ابھی بھی باقی ہے ۔
راجستھان میں گوجر اور مینا سماج ہمیشہ ایک دوسرے کے خلاف رہے ہیں ۔ 2018 کے الیکشن میں گوجر سماج نے سچن پائلٹ کو وزیر اعلیٰ بنانے کے لئے ووٹ کیا تھا ۔ یہاں تک کہ بی جے پی کے ایک بھی امیدوار کو نہیں جتایا ۔ گوجروں کے درمیان جو ایک الگ قسم کا جوش تھا اس بار اس میں کمی دکھائی دے رہی ہے ۔ حالانکہ پائلٹ کے تمام امیدواروں کو ٹکٹ دیا گیا ہے ۔ پھر بھی بھرت پور، الور، سوائی مادھو پور، دوسہ جیسے گوجر اکثریتی اضلاع میں کیا کانگریس واپسی کر پائے گی؟ اگر یہاں دھکا لگا تو کانگریس کی واپسی مشکل ہو سکتی ہے ۔ البتہ مارواڑ کی 43 سیٹیں حکومت بنانے میں اہم رول ادا کرتی آئی ہیں ۔ پچھلے الیکشن میں کانگریس کو اس علاقہ نے ہی اقتدار تک پہنچایا تھا ۔ کانگریس کو جودھپور کی 7، ناگور کی 6، جیسلمیر باڑ میر کی 8 جالور سروہی کی ایک سیٹ ملا کر کل 22 سیٹیں ملی تھیں ۔ اشوک گہلوت اس بار جودھپور کی سردار پورہ سیٹ سے الیکشن لڑ رہے ہیں ۔ جبکہ سچن پائلٹ کو ٹونک سے ٹکٹ دیا گیا ہے ۔ ٹونک میں گوجروں کے ساتھ مسلمانوں کی بڑی آبادی ہے ۔ بی جے پی نے کنور دانش سے پارلیمنٹ میں بد کلامی کرنے والے رمیش بدھوڑی کو یہاں کا نگراں بنایا ہے ۔ تاکہ ووٹوں کو پولرائز کیا جا سکے ۔
ریاست میں مسلم آبادی11 فیصد کے قریب ہے جو 18 فیصد سیٹوں کو متاثر کرتی ہے ۔ 40 سیٹوں پر مسلم سماج ہار جیت کا فیصلہ کرتا ہے ۔ 15 سیٹوں پر مسلمانوں کی بالا دستی ہے ان کے بغیر کوئی جیت نہیں سکتا ۔ 8 سے 10 سیٹیں وہ اپنے دم پر جیت سکتے ہیں ۔ لیکن کبھی بھی سات سے زیادہ مسلمان جیت کر اسمبلی نہیں پہنچے ۔ 1962 میں سب سے زیادہ 7 مسلمان ایم ایل اے بنے تھے ۔ 2013 میں 19 مسلم امیدواروں میں سے کانگریس نے 13 اور بی جے پی نے 4 کو ٹکٹ دیا تھا ۔ لیکن صرف بی جے پی کے 2 مسلمان کامیاب ہوئے تھے ۔ اجمیر ڈویژن، ٹونک، پشکر، ڈیڈوانہ، مسودا، مکرانہ، اور ناگور مسلم سیٹیں مانی جاتی ہیں ۔ فتحپور، تجارا رام گڑھ، کشن پول، ہوا محل، آدرش نگر، جوہری بازار مسلم سیٹیں رہی ہیں ۔ چوہٹّن، شیو، سور ساگر اور پوکرن کی سیٹوں پر مسلم امیدوار اتارے جاتے رہے ہیں ۔ پچھلے الیکشن میں مسلم اثر والی 40 سیٹوں میں سے 29 پر کانگریس نے کامیابی حاصل کی تھی ۔
مشرقی راجستھان میں بی ایس پی اثر ڈالے گی وہیں دوسری طرف شیخاوٹی میں جے جے پی اپنے امیدوار اتار کر کانگریس کا کھیل خراب کرنے کی کوشش کرے گی ۔ مگر اشوک گہلوت یوں ہی سیاست کے جادو گر نہیں کہلاتے ۔ انہوں نے پہلے ہی اس کی کاٹ تیار کر رکھی ہے ۔ ان کا ہر قدم اور بیان سدھا ہوا ہوتا ہے ۔ اندرونی طور پر ان کی ٹیم غضب کا کام کرتی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ سیاست میں جو دکھائی دیتا ہے وہ ہوتا نہیں ہے اور جو ہوتا ہے وہ دکھائی نہیں دیتا ۔ کانگریس نے پہلی لسٹ میں ان سیٹوں پر امیدواروں کے نام کا اعلان کیا جو اس نے جیت رکھ ہیں اور وہاں اس کی پوزیشن مضبوط ہے ۔ جبکہ بی جے پی نے اپنی سب سے کمزور سیٹوں کو پہلی لسٹ میں شامل کیا تھا ۔ اشوک گہلوت نے جن اسکیموں کا اعلان کیا انہیں زمین پر اتار کر دکھایا ۔ ہوا ہوائی وعدوں کا سہارا نہیں لیا ۔ اس الیکشن میں بھی وہ جو وعدے کر رہے ہیں عوام ان پر بھروسہ کر رہے ہیں ۔ پھر پرینکا گاندھی بھی ان کے ساتھ ہیں جن کے وعدوں کو کانگریس نے حکومت بنتے ہی پورا کیا ہے ۔ ہجومی تشدد کے ایک دو واقعات اور ایک مسلم خاتون ناکارہ ایم ایل اے کی وجہ سے کچھ ناراضگی دیکھنے کو مل رہی ہے ۔ لیکن پورے پانچ سال کے دوران انتظامیہ نے کوئی ناپسندیدہ واقعہ نہیں ہونے دیا ۔ پھر اشوک گہلوت کے کام کرنے کے طریقہ سے لگ رہا ہے کہ بھلے ہی کانگریس ان کے چہرے پر الیکشن نہیں لڑ رہی لیکن وہی سب سے آگے ہیں ۔ اس کی وجہ سے محسوس ہو رہا ہے کہ شاید کانگریس اس مرتبہ دوبارہ حکومت بنا کر راجستھان کی روایت کو بدل دے گی ۔