مطالعہ بلند خیالی ،اعلیٰ ظرفی اور وسعت نظری پیدا کرتا ہے

ڈاکٹر سراج الدین ندوی

مطالعہ ہمارے زمانے کے ان الفاظ میں سے ہے جس سے آنے والی نسلیں بہت کم متعارف ہوں گی۔اس لیے کہ موجودہ زمانے میں بھی اس کے متعارفین کی تعداد بہت کم ہوگئی ہے ۔آج سے چالیس پچاس سال پہلے ہر پڑھا لکھا انسان مطالعہ کرتا تھا ۔لائبریریاں بھری رہتی تھیں ۔درسی و غیر درسی کتابوں کی خریدو فروخت بڑی مقدار میں ہوتی تھی ۔ہر تعلیم یافتہ شخص کے گھر میں دو چار کتابیں اور رسائل موجود رہتے تھے ۔دوران سفر لوگ کتاب پڑھتے ہوئے دیکھے جا تے تھے ۔تحفے تحائف میں بھی کتابیں دی جاتی تھیں ۔ملاقات کے وقت اہل علم زیر مطالعہ کتاب کا ماحصل پیش کرتے تھے ۔ایک دوسرے کو اچھی کتابوں کی نشاندہی کرتے تھے ۔یہ الگ بات تھی کہ لوگ کیا مطالعہ کرتے تھے ۔کوئی دینی کتابیں پڑھتا تھا ،کوئی ناول اور افسانے پڑھتا تھا ،کسی کو شعرو شاعری کی کتابوں سے دل چسپی تھی ،کچھ لوگوں کو ماہناموں کا بے صبری سے انتظار رہتا تھااور جیسے ہی ڈاکیہ رسالہ دیتا تھا بھائی بہنوں میں’’ پہلے میں پہلے میں ‘‘کی تکرار شروع ہوجاتی تھی ۔اِس وقت صورت حال یکسر بدل گئی ہے ۔ماہناموں کے پرستار ملک عدم چلے گئے ہیں ،اخبار بینوں میں وہ لوگ باقی ہیں جن کی بینائی متاثر ہے ،ناول اور افسانے کالج اور یونیورسٹی کی ضرورت کی حد تک محدود ہوگئے ہیں ،دینی کتابوں کا مطالعہ بھی معدوم ہوتا جارہا ہے ۔یہ تبدیلی سوشل میڈیا کا کرشمہ ہے ۔ایک اسمارٹ فون ایک مکمل دنیا ہے ۔اس میں ای لائبریری ہے ،جہاں ہر طرح کی کتابیں دستیاب ہیں ۔وہاں شعری و ادبی تخلیقات بزبان تخلیق کار موجود ہیں ،وہاں فلموں اور نغموں کی ایک وادی ہے ،جس میں انسان بھٹکتا پھرتا ہے ۔ایک کلک پر بیشتر حوالہ جات دستیاب ہیں ۔سوال یہ ہے کہ کیا سوشل میڈیا پر دستیاب یہ مواد کتاب کا بدل ہے ؟
میں نے اس سوال پر جہاں تک غور کیا ہے میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ سوشل میڈیااور گوگل پر دستیاب مواد کی اپنی جگہ اہمیت ہے ۔لیکن وہ کتاب کا بدل نہیں ہے ۔یہ ٹھیک ہے کہ اب آپ جس موضوع پر چاہیں مطالعہ کرسکتے ہیں ،لیکن موبائل اور لیپ ٹاپ کی اسکرین اورکتاب کے ورق میں زمین و آسمان کا فرق ہے ۔اسکرین پر آپ بہت دیر تک نہیں پڑھ سکتے ۔دوچار صفحات میں ہی آنکھیں تھکنے لگتی ہیں ،انگلیاں سائٹ بدل دیتی ہیں ۔جب کہ کتاب پڑھنے والے کئی سو صفحات کی کتاب بھی ایک نشست میں پڑھ لیتے تھے ۔ابن صفی کے جاسوسی ناول ،نسیم حجازی کی تاریخی داستانیں جس کے منہ کو لگ جاتی تھیں ،چھٹائے نہ چھوٹتی تھیں ۔کتاب کا حوالہ مصدقہ سمجھاجاتا ہے ،اس لیے کہ کتاب کا اپنا جسمانی وجود ہے ۔جب کہ گوگل پر دستیاب مواد کب ڈلیٹ کردیا جائے یا تبدیل کردیا جائے کچھ نہیں معلوم ۔کتابوں کے ذریعہ حاصل کردہ علم دیرپا بھی ہے اور زندگی پر اثر انداز بھی ہوتا ہے۔
مطالعہ کی اہمیت اور افادیت و ضرورت انسانی زندگی میں وہی ہے جو جسم کے لیے غذا کی ہے ۔مطالعہ روح کی غذا ہے ۔جس طرح جسم غذا کے بغیر باقی نہیں رہ سکتا ،اسی طرح بغیر مطالعہ کے روح مردہ ہوجاتی ہے ۔مطالعہ تمام انبیاء کی سنت ہے ۔اللہ تعالیٰ نے جن انبیاء پر کتاب نازل کی انھیں براہ راست اس کو پڑھنے ،سمجھنے اور دوسروں کو سمجھانے اور سکھانے کی ہدایت دی اور جن انبیاء پر کتاب نازل نہیں کی ان کو اپنے پیش رو انبیاء پر نازل شدہ کتابوں کی تعلیم و تفہیم کا حکم دیا ۔کتاب کی تلاوت کے ساتھ آفاق و انفس میں غور وتدبر پر متوجہ کیا ۔یہ غور تدبر مطالعہ نہیں تو اور کیا ہے ۔پیغمبر ﷺ کی دعا ’’ رب زدنی علما‘‘ (اے میرے پروردگار میرے علم میں اضافہ فرما ) انسان کو مطالعہ کے لیے مہمیز کرتی ہے ۔اس لیے کہ بغیر مطالعہ کے علم میں اضافہ ممکن نہیں ۔پھر ’’فاسئلوا اھل الذکر‘‘(اہل علم سے معلوم کرلو)کی ہدایت اہل علم سے رجوع کرنے اور کتاب کے مفاہیم کو سمجھنے کی دعوت ہے ۔کتاب کو ترتیل یعنی ٹھہر ٹھہر کرپڑھنے کا حکم سوچ سمجھ کر اور بالترتیب مطالعہ کا حکم ہے ۔یعلمھم الکتاب(وہ یعنی رسول کتاب کی تعلیم دیتا ہے ) کا بیان اجتماعی مطالعہ ،مذاکرہ ،سمپوزیم اور سمینار پر دلالت کرتا ہے ۔خذ الکتاب بقوۃ (کتاب کو مضبوطی سے پکڑ لو) کا حکم کتاب کے گہرے مطالعہ و عمل کی دعوت دیتا ہے۔
کن علوم کا مطالعہ کیاجائے ؟ یہ سوال بھی انتہائی اہم ہے ۔اس کا ایک جواب تو یہ ہے انسان کو اپنے ذوق کے مطابق کسی علمی صنف کاانتخاب کرنا چاہئے ۔دوسرا جواب یہ ہے کہ انسان کو اپنی ضرورت کے مطابق علم و فن کی کتابوں کا انتخاب کرنا چاہئے ۔البتہ ہمیں قرآن مجید ، انبیاء کی سیرت ،اہل تقویٰ کی زندگی سے یہ رہنمائی ضرور ملتی ہے کہ مطالعہ کا مقصد مثبت ہونا چاہئے ۔اس کے افادی پہلو مد نظر رہنے چاہئیں۔اس علم کو پڑھاجائے جو فرد کے اندر بلند خیالی ،وسعت نظری اور اعلیٰ ظرفی پیدا کرتا ہو۔جو سماج میں اخوت و بھائی چارہ کو فروغ دیتا ہو ،جس سے معاشرے میں نیکیاں فروغ پاتی ہوں ،جو انسان کے جذبات کو اصلاح کی جانب مہمیز کرتا ہو،جو فساد فی الارض سے روکتا ہو۔جس سے ریاست اور ملک کی تعمیر میں مدد ملتی ہو ۔ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید میں مندرجہ بالا سبھی موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے ۔اس میں اللہ کی وحدانیت کے ثبوت،رسالت کے شواہد،آخرت کے دلائل ہیں ،اس میں نمازو روزہ اور حج و قربانی کا بیان ہے ،اس میں روح کے تزکیہ کی بات کہی گئی ہے ،اس میں معاملات کی درستگی ،انسانوں کے حقوق کی ادائیگی کا حکم دیا گیا ہے ،اس میں سائنسی حقائق کا ذکر ہے ،اس میں قوموں کے عروج و زوال کے اسبا ب و علل مذکور ہیں ۔اس میں دیگر مذہبی و آسمانی کتابوں کا تنقیدی مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔ وغیرہ وغیرہ یعنی انسان اگر مثبت نقطۂ نظر سے قرآن پاک کا مطالعہ کرے گا تو وہ ایک اچھا انسان بن جائے گا اور ایک اچھے سماج کی تعمیر کرے گا ۔
جس طرح انسانی صحت کے لیے اچھی غذا کی ضرورت ہے اسی طرح انسان کی روح کے لیے اچھی کتابوں کی ضرورت ہے ۔اس لیے ہمیں مطالعہ کے لیے اچھی کتابوں کا انتخاب کرنا چاہئے ۔اچھی کتابوں سے میری مراد ان کتابوں سے ہے جن کو پڑھ کر انسان کے اندر حیا،شرم ،سچائی ،امانت داری ،ایفائے عہد ،ایثارو قربانی کے جذبات پروان چڑھتے ہیں اور اس کے اندر سے حوانیت کے عناصر ختم ہوتے ہیں ،جن کتابوںسے انسان کے اخلاق خراب ہوتے ہوں ان کتابوں سے گریز کرنا چاہئے۔
جس طرح الّم غلّم کھانے سے انسانی صحت خراب ہوتی ہے ٹھیک اسی طرح الل ٹپ مطالعہ سے ذہن منتشر ہوتا ہے ۔ہمیں چاہئے کہ ہم ایک ترتیب کے ساتھ مطالعہ کریں ،پہلے ایک موضوع منتخب کریں ،پھر اس موضوع پر دستیاب کتابوں کی فہرست بنائیں ،اس فہرست سے مفید کتابوں کو منتخب کریں اور پھر مطالعہ شروع کریں ،اس کا یہ فائدہ ہوگا کہ متعلقہ موضوع پر ہمارا علم وسیع ہوگا اور ہم اس موضوع پر دوسروں کو کچھ بتانے کی پوزیشن میں ہوں گے ۔
مطالعہ کا مقصد بھی واضح ہونا چاہئے ۔ایک طالب علم کو ان کتابوں کا مطالعہ کرنا چاہئے جن سے اس کا رذلٹ بہتر ہو،ایک استاذ کو ان مضامین کا مطالعہ کرنا جن کے ذریعہ وہ اپنے شاگردوں کو تازہ اور اپ ڈیٹ علم سے آشنا کرسکے ،ایک طبیب اور ڈاکٹر،ایک انجینئر اور سائنٹسٹ کو اپنے پیشہ و ہنر میں نکھار لانے والی کتابوں کا مطالعہ کرنا چاہئے ،ائمہ مساجد اور علمائے دین کو دور حاضر کے چیلینجز میں رہنمائی کرنے والے علوم کا مطالعہ کرنا چاہئے ۔آج المیہ یہ ہے کہ ہمارے علمائے دین اور ا ئمہ مساجد بہت کم مطالعہ کرتے ہیں ،اگر وہ مطالعہ کریں گے تو دور جدید کے فتنوں سے واقف ہوجائیں گے ،انھیں شیطان اور اس کی ذریت کی جانب چلائے جانے والے اخلاق سوز پروگراموں کا علم ہوجائے گا اور وہ اپنے سامعین کی صحیح رہنمائی کرپائیں گے ۔
غیر نافع علم سے نبی اکرم ﷺ نے پناہ مانگی ہے ۔اس کا مطلب ہے کہ ہمیں نفع بخش کتابوں کا مطالعہ کرنا چاہئے ۔غیر نافع کتابیں پڑھنا وقت اور پیسہ دونوں کا ضیاع ہے ۔وقت اور مال اللہ کی عطا کردہ نعمتیں ہیں ،جن کا ہمیں حساب بھی دینا ہے ۔
ہم جو کچھ پڑھیں اس کا ماحصل اپنے احباب و متعلقین کو بھی بتائیں ۔اس کا ایک فائدہ یہ گا کہ ہمارا علم مستحکم ہوگا اور دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ ہم اچھی باتوں کی اشاعت کا ذریعہ بنیں گے اور دوسروں کو اچھی باتیں بتانا بجائے خود صدقہ ہے ۔ہمارے ایک دوست نے شکایت کی کہ میں جو کچھ پڑھتا ہوں بھول جاتا ہوں ،اس پر ایک دوسرے دوست نے مشورہ دیا کہ’’ تم جو کچھ پڑھو اس کو اپنے متعلقین تک منتقل کردیا کرو ۔دوسرا طریقہ یہ ہے کہ تم اپنے مطالعہ پر فوراً عمل شروع کردو ۔اس طرح تم اس کو بھولنے سے بچ جائوگے۔‘‘
مطالعہ کا مقصد تب ہی حاصل ہوگا جب کہ ہم اس پر عمل کریں گے ۔حسن اخلاق پر اچھی کتابیں پڑھ لینے سے ہی اخلاق اچھے نہ ہوں گے ۔اپنے اخلاق کو اچھا بنانے کے لیے جہاں علم کی ضرورت ہے وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ ہم اس علم پر عمل کریں ۔مطالعہ کا مقصد علمی رعب جمانا نہ ہو ۔بعض لوگ علمی تکبر کا شکار ہوجاتے ہیں ،وہ ہر کسی پر اپنے علم کا رعب جماتے ہیں ۔یہ مطالعہ کا منفی پہلو ہے اس سے بچنا چاہئے ۔حدیث میں آتا ہے کہ بروز حشر ایک عالم سے کہا جائے گا کہ تم نے علم اس لیے حاصل کیا تھا کہ لوگ تمہیں علامہ کہیں ،اور دنیا میں لوگوں نے تمہیں علامہ کہہ دیا اس طرح تمہارے علم کا اجر تمہیں دنیا میں ہی مل گیا اور پھر اس عالم کو منہ کے بل گھسیٹ کر دوزخ میں ڈال دیا جائے گا۔ہر طرح کے تکبر سے اللہ سے پناہ مانگا چاہئے اور اس سے علم نافع کے حصول کی دعا کرنا چاہئے ۔