بی جے پی نریندر مودی اور آر ایس ایس
ڈاکٹر مظفر حسین غزالی
متعلقہ مضامین
لوک سبھا انتخاب کے نتائج آنے کے بعد آر ایس ایس کا ردعمل اس وقت سامنے آیا جب بی جے پی کی ہار، جیت پر بات ہو رہی تھی ۔ بی جے پی اس میں این ڈی اے کی جیت دیکھ رہی ہے تو اپوزیشن مودی کی ہار ۔ عوام نے کسی بھی پارٹی کو ایسا مینڈیٹ نہیں دیا کہ وہ اکیلے حکومت بنا سکے ۔ میڈیا میں بی جے پی کی کمیوں، نریندر مودی کے تکبر، اتحادیوں کے ساتھ مل کر کام کرنے اور رویہ میں لچک پیدا کرنے پر شک، گٹھ بندھن کے ساتھیوں کو وزارتوں میں اہمیت دینے اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کی مشکلات پر بات ہو رہی تھی تو عوام میں بھاجپا حکومت کی کار کردگی پر ۔ مودی حکومت 3.0 میں تمام اہم وزارتیں بی جے پی نے اپنے پاس رکھی ہیں ۔ این ڈی اے کے ساتھیوں کو کھلونے دے کر بہلانے کی کوشش کی گئی ہے ۔ این ڈی اے کے اہم پارٹنر ٹی ڈی پی، جے ڈی یو کا وزارتوں کی تقسیم میں خیال نہیں رکھا گیا ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اسپیکر بھی بی جے پی کا ہی ہوگا ۔ اس پر سوال اٹھ رہے ہیں اور گرماگرم بحث جاری ہے ۔ آر ایس ایس کے چیف موہن بھاگوت، اندریش کمار اور رتن شاردا نے بحث کے بیچ میں کود کر اس کا رخ بدل دیا ۔
آر ایس ایس کے چیف موہن بھاگوت نے ناگپور میں دیئے اپنے بیان میں کہا کہ سچا سیوک مغرور نہیں ہوتا ۔ وہ حد میں رہ کر کام کرتا ہے ۔ اس میں تکبر نہیں آتا کہ سب کچھ میں نے کیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ سنگھ ایک ثقافتی تنظیم ہے لیکن ہمیں الیکشن میں گھسیٹا گیا ۔ سنگھ کسی سیاسی پارٹی کو ووٹ دینے کو نہیں کہتا ۔ وہ ملک کے مفاد میں کام کرنے والوں کی حمایت کرتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن جنگ نہیں ہے ۔ اپوزیشن کی عزت کرنی چاہئے ۔ انہوں نے منی پور میں لمبے عرصے سے چل رہے تشدد پر سوال اٹھایا اور کہا کہ وہاں امن قائم کرنے کی کس کی ذمہ داری ہے ۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کے بغیر ہندوتوا نہیں ۔ سنگھ کی قومی ایگزکٹیو کے ممبر اندریش کمار نے جے پور کے قریب ایک تقریب کے دوران کہا کہ "رام سب کے ساتھ انصاف کرتے ہیں ۔ لوک سبھا الیکشن کو ہی دیکھ لیجئے جنہوں نے عام کی بھکتی کی، لیکن ان میں دھیرے دھیرے تکبر آگیا ۔ جو طاقت انہیں ملنی چاہئے تھی وہ بھگوان نے مغروریت کی وجہ سے روک دی ۔ پربھو کا انصاب عجیب نہیں سچ ہے بڑا خوشگوار ہے”۔ سنگھ کے مفکر رتن شاردا نے بھی آر ایس ایس کے ترجمان آرگنائزر میں بی جے پی کی قیادت پر مغرور اور زیادہ پر اعتماد ہونے کا الزام لگایا ہے ۔
موہن بھاگوت اور سنگھ کے دوسرے ذمہ داروں کے ذریعہ اٹھائے گئے سوالوں کو بی جے پی کے صدر جے پی نڈا کے بیان "ہمیں آر ایس ایس کی ضرورت نہیں” کے ساتھ جوڑ کر دیکھا جا رہا ہے ۔ میڈیا میں بی جے پی اور آر ایس ایس کے درمیان ٹکراؤ کو لے کر بحث ہو رہی ہے ۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جب بھی بی جے پی ملکی یا بین الاقوامی دباؤ میں ہوتی ہے ۔ سنگھ سامنے آکر اسے کم کرنے کا کام کرتا ہے ۔ ملک اور بیرون ملک نریندرمودی کی مطلق العنانی، اپوزیشن کو ہراساں کرنے، اکثریتی ووٹ حاصل کرنے کے لئے مسلمانوں کو نشانہ بنانے، اقیتوں کے ساتھ امتیاز برتنے، منی پور میں امن بحال نہ کرنے، کسانوں، مزدوروں، غریبوں کے مسائل پر توجہ نہ دینے اور چندے کے بدلے دھندے پر بات ہو رہی تھی ۔ یہ بھی سوال کیا جا رہا تھا کہ تمام اہم وزارتیں انہیں کے حوالے کی گئی ہیں جن کے پاس اس سے پہلے تھیں ۔ تو کیا مودی حکومت 3.0 میں کچھ بدلے گا یا پھر پہلے جیسے ہی حالات رہیں گے ۔ یاد کیجئے کووڈ کے دور میں جب چاروں طرف سے حکومت پر تنقید ہو رہی تھی ۔ تب بھی آر ایس ایس کے صدر موہن بھاگوت نے یہ کہہ کر کہ حکومت سے غلطی ہوئی ہے اور غلطی عوام سے بھی ہوئی ہے ۔ تنقید کرنے والوں کا منھ بند کرنے کی کوشش کی تھی ۔
سوال یہ ہے کہ جو سوال الیکشن کے نتائج آنے کے بعد اٹھائے گئے ۔ ان پر انتخاب کے دوران کیوں نہیں بات کی گئی ۔ آر ایس ایس کے نظریہ کے مطابق انسان پر ملک کو فوقیت دی جاتی ہے ۔ لیکن 2014 سے 2024 تک ملک اور پارٹی پر ایک شخص کو اہمیت دی گئی ۔ یا پھر کہیں کہ پورا تانا بانا ایک شخص کے ارد گرد ہی بنا گیا ۔ ریاستوں سے لے کر قومی الیکشن تک میں اسی شخص کو آگے رکھا گیا ۔ آر ایس ایس نے اس کی شخصیت ابھارنے کے لئے اپنی ذیلی تنظیموں تک کو اس پر قربان کر دیا ۔ یا کہیں اپنی فکر سمجھوتا کر لیا یہ سنگھ کی تاریخ میں شاید پہلی مرتبہ ہوا ہے ۔ آر ایس ایس دنیا کی اکلوتی ایسی ثقافتی تنظیم ہے جس کے کسان، مسلمان، خواتین، نوجوان، کامگاروں، کاروباریوں اور خارجی معاملوں میں کام کرنے والی 22 سے زیادہ ماتحت تنظیمیں ہیں ۔ ملک کے باہر این آر آئی کے درمیان کام کرنے لئے بھی الگ تنظیم ہے ۔ کوئی بھی معلوم کر سکتا ہے کہ جب کسان احتجاج کر رہے تھے تو آر ایس ایس کی تنظیم کہاں تھی ۔ جب مزدور کووڈ کے دوران ہزاروں کلو میٹر کا بھوکے پیاسے پیدل سفر کرکے گھروں کو لوٹ رہے تھے تب سنگھ کی کامگاروں کے درمیان کام کرنے والی تنظیم کہاں تھی ۔ جب جی ایس ٹی کی وجہ سے چھوٹے کاروبار تباہ ہو رہے تھے تب یہ سنگھٹن کہاں تھا ۔ جب مسلمانوں کا کاروباری بائیکاٹ کیا جا رہا تھا، جب جھوٹ کی بنیاد پر ان کے گھروں بلڈوز کئے جا رہے تھے، جب گائے کے نام پر یا جے شری رام کا نعرہ لگوانے کے لئے ہجومی تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا تھا تب سنگھ کہاں تھا ۔
ملک بھر میں آر ایس ایس کے قریب 60 لاکھ ممبران ہیں ۔ موجودہ وقت میں 56 ہزار 824 مقامات پر اس کی شاکھائیں لگتی ہیں ۔ 5505 بلاکوں میں اس کی موجودگی ہے ۔ پورے ملک میں کوئی بھی تنظیم سنگھ کی برابر اور اس جیسی منظم نہیں ہے ۔ اس کے جز وقتی و فل وقتی تنخواہ دار کارکنوں کی تعداد ریلوے کے مازمین سے زیادہ ہے ۔ حالانکہ بی جے پی کے ممبران کی تعداد 18 کروڑ سے زیادہ ہے ۔ لیکن یہ 364 دن 24 گھنٹہ کام کرنے والے نہیں ہیں ۔ سنگھ کی اسی طاقت کی وجہ سے بی جے پی کو ہمیشہ اس کی حمایت کی ضرورت رہتی ہے ۔ آر ایس ایس بہت ہی کم وقت میں کوئی بھی پیغام پورے ملک میں پہنچا سکتا ہے ۔ عوام کی رائے بنانے میں بھی اس کے کارکنان اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ بی جے پی اور سنگھ کے درمیان کوئی ٹکراؤ نہیں ۔ وہ حمایت یا اختلاف کرکے ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں ۔ موجودہ تنازعہ کو نورا کشی ہی کہا جا سکتا ہے ۔ یہ کشتی کا اکھاڑہ صرف اس لئے سجایا گیا تاکہ نریندر مودی اپنی حکومت 3.0 کی اقتصادی پالیسی اور اپوزیشن سے نپٹنے کی سکون کے ساتھ منصوبہ سازی کر سکیں ۔